Maktaba Wahhabi

457 - 552
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((وَہٰذِہِ الدَّرَجَۃُ مِنَ الْقَدْرِ یُکَذِّبُ بِہَا عَامَّۃُ الْقَدْرِیَّۃِ، الَّذِیْنَ سَمَّاہُمُ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم مَجُوْسَ ہٰذِہِ الاُمَّۃِ۔)) ’’مشیت اور خلق کے اس درجہ کا اکثر قدریہ انکار کرتے ہیں ، جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کے مجوسی قرار دیا ہے۔‘‘[1] [وَہٰذِہِ الدَّرَجَۃُ مِنَ الْقَدْرِ یُکَذِّبُ بِہَا عَامَّۃُ الْقَدْرِیَّۃِ، الَّذِیْنَ سَمَّاہُمُ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم مَجُوْسَ ہٰذِہِ الاُمَّۃِ۔] … [عَامَّۃُ الْقَدْرِیَّۃِ] …یعنی اکثر قدریہ اس درجہ کا انکار کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ انسان اپنے فعل کا پورا اختیار رکھتا ہے، اس میں اللہ کی مشیت اور خلق کار گر نہیں ہوتی۔ [سَمَّاہُمُ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم مَجُوْسَ ہٰذِہِ الاُمَّۃِ۔] …اس لیے کہ مجوسیوں کے نزدیک حوادث کے دو خالق ہیں ، ایک خیر کا خالق اور دوسرا شر کا، خیر کا خالق نور ہے اور شر کا خالق تاریکی۔ قدریہ مجوسیوں کے ساتھ یہ مشابہت رکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک حوادث کی دو قسمیں ہیں : اللہ کے فعل سے وقوع پذیر ہونے والے حوادث؛ یہ اللہ کی مخلوق ہیں ، اور بندوں کے فعل سے وقوع پذیر ہونے والے حوادث؛ جو کہ صرف بندوں کا فعل ہیں ۔ ان میں اللہ تعالیٰ کا تخلیقی عمل دخل نہیں ہوتا۔ اہل اثبات کا بندے کی قدرت و اختیار کو سلب اور اللہ کے افعال و احکام کو حکمت سے خارج کرنا ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((وَیَغْلُوْا فِیْہَا قَوْمٌ مِنْ اَہْلِ الْاِثْبَاتِ، حَتَّی سَلَبُوا الْعَبْدَ قُدْرَتَہُ وَاخْتِیَارَہُ، وَیُخْرِجُوْنَ عَنْ اَفْعَالِ اللّٰہِ وَاَحْکَامِہِ حِکَمَہَا وَمَصَالِحَہَا۔)) ’’اس میں اہل اثبات کی ایک جماعت نے غلو سے کام لیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے بندے سے اس کی قدرت اور اختیار کو سلب کر لیا، وہ اللہ کے افعال اور اس کے احکام سے اس کی حکمتوں اور مصلحتوں کو خارج کرتے ہیں ۔‘‘ شرح:…[وَیَغْلُوْا فِیْہَا ] …یعنی اس کے درجہ میں ۔ [قَوْمٌ مِنْ اَہْلِ الْاِثْبَاتِ] …یعنی اہل قدر۔ اس قوم سے مراد جبریہ ہیں ، انہوں نے بندے سے اس کی قدرت اور اختیار کو سلب کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ
Flag Counter