معبود نہیں ، وہ زندہ ہے سب کا سنبھالنے والا ہے، اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند، اسی کا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے، ایسا کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے سفارش کر سکے، وہ جانتا ہے جو ان کے آگے ہے اور جو ان کے پیچھے، وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے، مگر جو وہ چاہے، اس کی کرسی نے آسمانوں اور زمین کو گِررکھا ہے اور اس پر ان کی نگرانی ذرا بھی گراں نہیں ، وہ عالیشان ہے، عظیم الشان ہے۔‘‘
آیت الکرسی کی تفسیر
شرح:… [ وَمَا وَصَفَ بِہِ نَفْسَہُ فِیْ أَعْظَمِ آیَۃٍ فِی کِتَابِ اللّٰہِ] … قرآن مجید کی یہ آیت، آیۃ الکرسی کے نام سے موسوم ہے، اور یہ اس لیے کہ اس میں کرسی کا ذکر آتا ہے؟ اور یہ کتاب اللہ کی بڑی باعظمت آیت ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا: ’’کتاب اللہ میں کون سی آیت سب سے عظمت والی ہے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ﴿اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ﴾ اس پر آپ نے ان کے سینہ پر ہاتھ مارتے ہوئے فرمایا:’’ابو منذر! آپ کو علم مبارک ہو۔‘‘[1] یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس بات کی تائید فرما دی کہ یہ کتاب اللہ کی عظیم ترین آیت ہے۔ نیز یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ حضرت ابی رضی اللہ عنہ کتاب اللہ کے بڑے عالم تھے۔
یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ بعض قرآنی آیات بعض دوسری آیات پر فضیلت رکھتی ہیں ، سورئہ اخلاص کی فضیلت پر مبنی گزشتہ حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے، چونکہ یہ موضوع تفصیل طلب ہے لہٰذا اس کے بارے میں چند سطور پیش خدمت ہیں ۔
جہاں تک متکلم قرآن کا تعلق ہے تو اس میں تفاضل ہرگز نہیں ہے، اس لیے کہ اس کا متکلم ایک ہی ہے اور وہ ہے: اللہ عزوجل۔ البتہ اس کے مدلولات وموضوعات کے اعتبار سے اس میں تفاضل ضرور پایا جاتا ہے، سورئہ اخلاص جو کہ اللہ رب العزت کی حمدوثنا اور اس کے اسماء وصفات پر مشتمل ہے۔ موضوع کے اعتبار سے سورئہ لہب جیسی نہیں ہے جو کہ ابولہب کی حالت کے بیان پر مشتمل ہے، اسی طرح قرآن مجید تاثیر اور اسلوب بیان کی قوت کے اعتبار سے بھی متفاضل ہے، ہم کتنی ہی ایسی چھوٹی چھوٹی آیات کی تلاوت کرتے ہیں جو دل پر گہرے اثرات مرتب کرتیں اور اپنے اندر عبرت وموعظت کا بڑا سامان رکھتی ہیں ، جبکہ ان سے زیادہ طویل سورتیں ایسے اثرات پر مشتمل نہیں ہوتیں ۔ مثلاً
﴿یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْْنَ اٰمَنُوْْٓا اِذَا تَدَایَنْْتُمْْ بِدَیْْنٍ اِلٓٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْْتُبُوْْہُ﴾ (البقرۃ: ۲۸۲)
’’اے ایمان والو! جب تم آپس میں ایک مقررہ مدت تک ادھار میں لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔‘‘
اس قرآنی آیت کا موضوع بالکل آسان ہے اور اس میں لوگوں کے مابین طے پانے والے روز مرہ کے معاملات کے بارے میں بحث کی گئی ہے، لیکن یہ اس تاثیر کی حامل نہیں ہے جس کی حامل یہ قرآنی آیت ہے:
﴿کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ
|