الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَ مَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِo﴾ (آل عمران: ۱۸۵)
’’ہر جاندار موت کا ذائقہ چکھنے والا ہے اور یقینا قیامت کے دن تمہیں تمہارے اجور پورے پورے دیئے جائیں گے، پس جو شخص آگ سے بچا لیا گیا اور اسے جنت میں داخل کر دیا گیا تو یقینا وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔‘‘
یہ آیت کریمہ ترغیب وترہیب اور زجر وموعظت جیسے عظیم معانی پر مشتمل ہے جو کہ قرضہ والی مذکورہ بالا آیت میں نظر نہیں آتے حالانکہ وہ اس سے طویل ہے۔
[ اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ] … اس آیت میں اللہ تعالیٰ اس امر سے آگاہ کر رہا ہے کہ وہ الوہیت میں منفرد ہے اور یہ اس لیے کہ یہ جملہ حصر کا فائدہ دیتا ہے، نفی واثبات کا طریقہ حصر کے قوی ترین طریقوں میں سے ایک ہے۔
[اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ] …(الحی) یعنی حیات کاملہ والا، جو کہ کمال کی جمیع صفات پرمشتمل ہے، ایسی حیات کہ جس سے قبل عدم نہیں تھا اور بعد میں زوال نہیں ہوگا اور نہ اس میں کسی طرح کا کوئی نقص آتا ہے۔ (الحی) یہ اسمائے باری تعالیٰ میں سے ہے، جس کا غیر اللہ پر بھی اطلاق کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً:
﴿یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ﴾ (الانعام: ۹۵) ’’وہ زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے۔‘‘
مگر زندہ، زندہ جیسا نہیں ہے، اسم میں اشتراک سے مسمی میں مماثلت لازم نہیں آتی۔
[الْقَیُّوْمُ]… یہ فیعول کے وزن پر، مبالغہ کا صیغہ ہے اور یہ قیام سے ماخوذ ہے اور اس کا معنی ہے: قائم بنفسہٖ یہ معنی اس امر کا متقاضی ہے کہ وہ ہر شے سے بے نیاز ہے، وہ اکل وشرب اور کسی بھی دوسری چیز کا محتاج نہیں ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ کوئی بھی از خود قائم نہیں ہے بلکہ وہ ایجاد واعداد اور امداد میں اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے، اس کا یہ معنی بھی ہے کہ وہ دوسروں کو سنبھالنے والا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿اَفَمَنْ ہُوَ قَآئِمٌ عَلٰی کُلِّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ﴾ (الرعد: ۳۳)
’’پھر کیا وہ جو ہر شخص پر مطلع ہے کہ اس نے کیا کیا۔‘‘ (وہ دوسروں کے برابر ہے؟)
اس ہر مقابل محذوف ہے، اور تقدیری عبارت ہے: کمن لیس کذلک، یعنی جو ایسا نہیں ہے، اسی لیے علماء فرماتے ہیں : قیوم وہ ہے جو خود قائم ہو اور دوسروں کو قائم رکھنے والا ہو، پھر جب وہ دوسروں کو سنبھالنے والا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اس کی وجہ سے قائم ہیں ۔ فرمایا گیا:
﴿وَ مِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ تَقُوْمَ السَّمَآئُ وَ الْاَرْضُ بِاَمْرِہٖ﴾ (الروم: ۲۵)
’’اور اس کی آیات قدرت میں سے یہ بات بھی ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں ۔‘‘
لہٰذا رب تعالیٰ کی صفات بھی کامل ہیں ، اس کی بادشاہت بھی کامل، اور اس کے جملہ افعال بھی کامل ہیں ۔
یہ دونوں اسم اعظم ہیں جب ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو پکارا جائے تو وہ قبول فرماتا ہے، لہٰذا انسان کو چاہیے کہ وہ دعا
|