کرتے وقت ان کا وسیلہ اختیار کرتے ہوئے یوں کہا کرے: یَاحَیُّ یَا قَیُّوْمُ۔ [1] ان دونوں کا کتاب عزیز میں تین مقامات پر ذکر آیا ہے، ایک دفعہ اس جگہ، دوسری دفعہ سورئہ آل عمران میں : ﴿اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ا لْحَیُّ الْقَیُّوْمُ﴾ (اٰل عمران: ۲)
اور تیسری دفعہ سورئہ طہٰ میں :
﴿وَ عَنَتِ الْوُجُوْہُ لِلْحَیِّ الْقَیُّوْمِ﴾ (طٰہٰ: ۱۱۱) ’’اور چہرے جھک جائیں گے زندہ و قیوم کے لیے۔‘‘
ان دونوں ناموں میں کمال ذاتی کا اظہار بھی کیا گیا ہے اور کمال سلطانی کا بھی، ذاتی کمال کا اظہار (الحی) سے ہوتا ہے اور سلطانی کمال کا (اَلْقَیُّوْمُ) سے، اس لیے کہ وہ ہر چیز کا نگہبان ہے ہر چیز اس کی وجہ سے قائم ہے۔
[لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوْمٌ] … سنۃ: اونگھ، یعنی نیند کا آغاز۔ اللہ تعالیٰ نے ’’لا ینام‘‘ نہیں فرمایا، اس لیے کہ نیند کا وقوع اختیار کے تحت ہوتا ہے جبکہ ’’اخذ‘ سے قہر وزبردستی کی عکاسی ہوتی۔نیند کا شمار صفات نقص میں ہوتا ہے، نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سوتا نہیں اور نہ ہی سونا اس کے شایان شان ہے۔[2]
اس صفت کا شمار صفات نفی میں ہوتا ہے اور قبل ازیں یہ بتایا جا چکا ہے کہ صفات نفی، ثبوت کو متضمن ہوا کرتی ہیں ، اور وہ ہے کمال ضد﴿لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوْمٌ﴾ میں جس کمال کا اثبات ہوتا ہے وہ ہے حیات وقبولیت کا کمال، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کمال حیات کی وجہ سے نیند کا محتاج نہیں ہے اور کمال قبولیت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ سوئے نہیں ۔ زندہ مخلوق کو اپنے اندر موجود نقص کی وجہ سے سونے کی حاجت ہوتی ہے تاکہ اسے گزشتہ تھکاوٹ سے راحت میسر آئے اور آئندہ کے کام کاج کے لیے قوت بحال ہو، چونکہ جنت میں اہل جنت کو کامل زندگی سے نوازا جائے گا لہٰذا وہ اس میں نیند نہیں لیں گے، جیسا کہ صحیح آثار سے ثابت ہے۔
اگر کوئی یہ اشکال پیش کرے کہ انسان کو نیند آنا وصف کمال ہے، اس لیے کہ جب انسان کو نیند نہ آئے تو اسے مریض سمجھا جاتا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کو کھانے پینے کی ضرورت پیش آنا صفت کمال ہے اگر کوئی شخص کھانا نہ کھائے تو اسے بیمار خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر یہ ایک وجہ سے کمال ہے تو دوسری وجہ سے نقص بھی ہے۔ کمال تو اس لیے کہ یہ انسان کے صحت مند ہونے کی دلیل ہے اور نقص اس لیے کہ بدن اس کا محتاج ہے۔ اکل و شرب حقیقتاً ایک نقص ہی ہے۔
الغرضمخلوق کی نسبت سے ہر کمال نسبی اللہ تعالیٰ کے لیے کمال نہیں ہوتا، بالکل اسی طرح خالق کا ہر کمال مخلوق کا کمال نہیں ہوا کرتا۔ تکبر خالق میں کمال ہے مگر مخلوق میں نقص۔ اکل و شرب اور نیند مخلوق میں کمال ہے اور خالق میں نقص۔ اسیلیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں فرمایا:
﴿وَ ہُوَ یُطْعِمُ وَ لَا یُطْعَمُ﴾ (الانعام:۱۴) ’’وہ کھلاتا ہے اسے کھلایا نہیں جاتا۔‘‘
|