ہے کہ یہ نعمتیں رحمت حق تعالیٰ کے آثار میں سے ہیں ۔
یہ عجیب بات ہے کہ یہ لوگ رحمت کا تو انکار کرتے ہیں مگر طریق تخصیص سے ارادہ رحمت کا اثبات کرتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ارادہ سمع وعقل سے ثابت ہے، سمع کے ساتھ تو واضح ہے جبکہ عقل کے ساتھ اس لیے کہ تخصیص ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور تخصیص کا مطلب ہے، موجودہ ماہیت میں مخلوقات کی تخصیص۔ اور یہ چیز ارادہ پر دلالت کرتی ہے۔ مثلاً اس آسمان کا آسمان، زمین کا زمین، سورج کا سورج اور ستاروں کا ستارے ہونا، یہ چیزیں ارادہ کے سبب سے مختلف ہیں ، اللہ نے ارادہ کیا کہ آسمان بن جائے آسمان بن لیا، ارادہ کیا گیا زمین بن جائے، زمین بن گئی، اسی طرح ستارے، سیارے وغیرہا۔
وہ کہتے ہیں کہ تخصیص ارادہ پر دلالت کرتی ہے، اس لیے کہ اگر ارادہ نہ ہوتا تو سب کچھ ایک ہی شے ہوتا۔
اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ ارادہ پر یہ دلیل نعمتوں کی رحمت پر دلالت کی نسبت سے زیادہ کمزور بھی ہے اور زیادہ مخفی بھی۔ نعمتوں کی رحمت پر دلالت کے علم میں عام وخاص برابر ہیں ، جبکہ تخصیص کی ارادہ پر دلالت سے صرف طلبۃ العلم جیسے خاص لوگ ہی آگاہ ہیں ۔ تم اس قدر جلی چیز کا انکار اور اس قدر خفی چیز کا اثبات کیسے کرتے ہو؟ کیا اس طرح تم تناقض کا شکار تو نہیں ہو؟
ان آیات سے مستفاد سلوکی امور
جب تک انسان اس امر سے آگا رہے گا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ رحم فرمانے والا ہے تو اس کا اس کی رحمت کے ساتھ تعلق رہے گا۔ اور وہ اس کا انتظار کرتا رہے گا، پھر اور اس کا یہ اعتقاد اسے ہر وہ سبب اختیار کرنے پر آمادہ کرے گا جو اس کی رحمت ایزدی تک رسائی کرا دے۔ مثلاً: احسان، جس کے بارے میں اللہ فرماتا ہے:
﴿اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَo﴾ (الاعراف: ۵۶)
’’یقینا اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔‘‘
نیز تقویٰ کے بارے میں فرمایا گیا:
﴿فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ الَّذِیْنَ ہُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَo﴾ (الاعراف: ۱۵۶)
’’میں جلد ہی اس (رحمت) کو ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو متقی بنے رہے۔ زکوٰۃ دیتے رہے اور وہ جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے رہے۔‘‘
اسی طرح ایمان، جو کہ رحمت باری تعالیٰ کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے، کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿وَ کَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًاo﴾ (الاحزاب: ۴۳)’’وہ اہل ایمان پر بڑا رحم کرنے والا ہے۔‘‘
ایمان جس قدر مضبوط ہوگا اللہ کے حکم سے رحمت صاحب ایمان کے اتنی ہی قریب ہوگی۔
آیات صفت رضا
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ﴾ (المائدۃ: ۱۱۹)
|