پیش آیا تھا۔ یہ دونوں واقعات تاریخ میں بڑی شہرت رکھتے ہیں ۔
پس کرامت، خارق عادت واقعہ سے عبارت ہے مگر جس چیز کا اظہار عادت کے مطابق ہوا اسے کرامت نہیں کہا جاتا۔ اللہ تعالیٰ اس چیز کو ولی کے ہاتھ پر جاری کرتا ہے تاکہ جادو اور شعبدہ بازی کے امور سے احتراز کیا جاسکے جو لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے اور ان کی عقول و افکار سے کھیلتے ہیں ۔کرامت قرآن و سنت اور واقع سے ثابت ہے۔ اس کا اظہار پہلے بھی ہوتا رہا اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔
قرآن و سنت سے ثابت شدہ کرامات
قرآن و سنت میں گزشتہ لوگوں کی کرامات میں اصحاب کہف کا واقعہ سر فہرست ہے۔ یہ لوگ مشرک لوگوں میں رہتے تھے، مگر جب اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئے ۔ اور انہیں یہ خوف لاحق ہوا کہ ہمیں بے بس کر دیا جائے گا تو وہ اللہ کی طرف ہجرت کرتے ہوئے بستی سے باہر نکل گئے اور چلتے چلتے پہاڑ کی ایک ایسی غار میں پناہ گزیں ہوگئے جس کا منہ شمال کی طرف کھلتا تھا جس کی وجہ سے سورج کی شعاعیں ان پر نہ پڑتیں ، جب سورج طلوع ہوتا تو وہ ان کے غار سے دائیں طرف بچ کر نکل جاتا اور جب غروب ہونے کو آتا تو بائیں طرف کترا جاتا، اور وہ اس کے کشادہ حصے میں موجود تھے، یعنی دھوپ نہ ان پر سورج چڑھتے وقت پڑتی اور نہ ڈھلتے وقت۔ یہ اہل توحید اس غار میں تین سو نو سال تک سوئے رہے، اور اللہ تعالیٰ دائیں طرف اور بائیں طرف انہیں کروٹ دلاتا رہا، ایسا موسم گرما میں بھی ہوتا رہا اور موسم سرما میں بھی، نہ تو گرمی نے انہیں پریشان کیا اور نہ سردی نے انہیں کوئی تکلیف دی، انہیں بھوک لگی نہ پیاس۔ اور نہ ہی وہ نیند سے اکتائے۔ وہ غار میں اسی طرح سوئے رہے، یہاں تک کہ جب ان کی بستی شرک سے پاک ہو گئی تو اللہ نے انہیں طویل نیند سے پیدا کردیا اور اس طرح وہ بستی والوں کی شر سے محفوظ رہے۔ یقینا یہ ان لوگوں کی کرامت تھی۔ سیدہ مریم کا واقعہ بھی اسی قبیل سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس وقت عزت دی جب وہ درد زہ کی وجہ سے کھجور کے تنے کے پاس پہنچیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اسے ہلانے کا حکم دیا تاکہ وہ ان پر ترو تازہ کھجوریں گرا دے۔
جہاں تک سنت میں کرامات کے ذکر کا تعلق ہے تو اس میں ان کا ذکر بڑی کثرت کے ساتھ موجود ہے اس کے لیے ملاحظہ فرمائیں : ’’صحیح بخاری‘‘ (کتاب الانبیاء، باب ماذکر عن بنی اسرائیل)، اور کتاب ’’الفرقان بین اولیاء الرحمن واولیاء الشیطن‘‘ از شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ۔
جہاں تک کرامات اولیاء کے ثبوت کے لیے واقعاتی شہادت کا تعلق ہے، تو انسان اپنی زندگی میں اس کا کئی بار مشاہدہ بھی کرتا ہے یا اخبار صادقہ کے ذریعے ان سے آگاہ ہوتا رہتا ہے۔
الغرض! اہل سنت کرامات اولیاء کی واقعیت کی تصدیق کرتے ہیں ۔
کرامات میں معتزلہ کا موقف اہل سنت والجماعت کے برعکس ہے
مگر اس حوالے سے معتزلہ اور ان کے پیروکاروں کا مذہب اہل سنت کے مذہب کے خلاف ہے، وہ کرامات کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کرامات کے اثبات سے جادوگر، ولی اور نبی کے مشابہہ ہو جائے گا، اس لیے کہ ان سب سے ہی
|