جہاں تک مومنوں کا تعلق ہے تو وہ اپنے دین کی وجہ سے باعزت ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا:
﴿فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَo﴾ (آل عمران:۶۴)
’’پس اگر وہ پھر جائیں تو تم کہہ دو کہ تم گواہ ہو جاؤ کہ بیشک ہم مسلمان ہیں ۔‘‘
وہ اپنے مسلمان ہونے کا کھلے بندوں اعلان کرتے ہیں اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی کوئی پرواہ نہیں کرتے ۔اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے لیے عزت کا اثبات ہو رہا ہے۔
عزت کی اقسام
اہل علم بتاتے ہیں کہ عزت کی تین قسمیں ہیں : عزت قدر، عزت قہر اور عزت امتناع۔
۱۔ عزت قدر:اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ رب العزت بڑی قدرو منزلت والا ہے۔ اس اعتبار سے اس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔
۲۔ عزت قہر:اسے غلبہ کی عزت بھی کہتے ہیں ، یعنی اللہ ہر چیز پر غالب اور ہر چیز پر زبر دست ہے۔ یہ ارشاد باری اسی معنی میں ہے: ﴿وَعَزَّنِی فِی الْخِطَابِ﴾ (ص:۲۳) یعنی گفتگو میں مجھ پر غالب آگیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ غالب ہے اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا بلکہ وہ ہر شے پر غالب ہے۔
۳۔ عزت امتناع:اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی نقص لاحق نہیں ہو سکتا، یہ قوت و صلابت سے ماخوذ ہے۔ اسی سے عربوں کا یہ قول ہے: اَرض عزاز۔ یعنی سخت زمین۔
یہ عزت کے وہ معانی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے ثابت کیا ہے جو اس کے کمال قہر و سلطان، کمالِ صفات اور پورے طور پر ہر نقص سے منزہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں ۔
[وَلِرَسُوْلِہِ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ ] … یعنی عزت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے، نیز اہل ایمان کے لیے ہے۔اس امر سے آگاہ ہونا ضروری ہے کہ جس عزت کا اثبات اللہ تعالیٰ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کے لیے کیا ہے وہ اللہ کی عزت جیسی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اسے کمزوری بھی لاحق ہوسکتی ہے، قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ﴾ (آل عمران:۱۲۳)
’’اور یقینا اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جبکہ تم کمزور تھے۔‘‘
وہ اللہ تعالیٰ کے پیش نظر کسی حکمت کی وجہ سے کبھی مغلوب بھی ہو سکتے ہیں ، مثلاً انہیں جنگ احد میں مکمل غلبہ حاصل نہ ہو سکا، اور غزوہ حنین میں بھی ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہوئے۔[1] جو کہ عزت میں کمی کی مظہر ہے، مگر اللہ تعالیٰ کی عزت میں کمی آتا کبھی بھی ممکن نہیں ہے۔
الغرض! جس عزت کا اثبات اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کے لیے کیا ہے وہ اس عزت جیسی نہیں ہے جس کا اثبات اس نے اپنی ذات کے لیے کیا ہے۔
|