ایمان کے ان چار چیزوں پر مشتمل ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ ان چار چیزوں کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے گا بلکہ انسان ان میں سے بعض اعمال کے غیر موجود ہونے سے بھی مومن ہوسکتا ہے مگر اس کے عمل میں کمی کے تناسب سے اس کے ایمان میں کمی واقع ہوجائے گی۔
اس میں دو انتہاء پسند بدعتی گروہ اہل سنت کے مخالف ہیں :
پہلا گروہ مرجیہ کا ہے، جن کے نزدیک ایمان اقرار بالقلب کا نام ہے اور بس۔ اس کے علاوہ کوئی بھی چیز ان کے نزدیک ایمان کا حصہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک ایمان میں کمی بیشی نہیں ہوتی، اس لیے کہ ان کے نزدیک ایمان دل کے اقرار کا نام ہے، اور اس میں سب لوگ برابر ہیں ۔ اس اعتبار سے شب وروز اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا انسان شب وروز اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والے انسان جیسا ہے۔ بشرطیکہ اس کی معصیت اسے دین سے خارج نہ کردے۔
اگر ایک انسان زنا کرتا، شراب نوشی کرتا، چوری کرتا اور لوگوں پر مظالم ڈھاتا ہے اور دوسرا متقی اور ان تمام برے اعمال سے کوسوں دور ہے، تو مرجیہ کے نزدیک یہ دونوں ایمان ورجاء میں برابر ہیں ، ان میں سے کسی کو بھی عذاب نہیں ہوگا، اس لیے کہ اعمال ایمان کی حقیقت میں داخل نہیں ہیں ۔
دوسرا گروہ خوارج اور معتزلہ کا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اعمال ایمان کی حقیقت میں داخل اور اس کی بقاء کے لیے شرط ہیں ۔ ان کے نزدیک کبیرہ گناہ کا مرتکب ایمان سے خارج ہوجاتا ہے۔ لیکن خوارج اسے کافر بتاتے ہیں ، جبکہ معتزلہ کہتے ہیں کہ وہ دو منزلوں کے درمیان والی منزل میں ہے، ہم اسے نہ تو کافر کہتے ہیں اور نہ ہی مومن، بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ ایمان سے نکل گیا مگر کفر میں داخل نہیں ہوا، اور اس طرح دو منزلوں کے درمیان والی منزل میں جا ٹھہرا۔
ایمان کے بارے میں یہ تھے مختلف لوگوں کے اقوال۔
ایمان کے اطاعت گزاری سے بڑھنے اور معصیت سے کم ہونے کا اثبات
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
(( وَ اَنَّ الْاِیْمَانَ یَزِیْدُ بِالطَّاعَۃِ وَیَنْقُصُ بِالْمَعْصِیَّۃِ۔))
’’ایمان اطاعت گزاری سے بڑھتا اور معصیت سے کم ہوتا ہے۔‘‘
یہ عبارت مؤلف کے قول ’’ان الدین … الخ‘‘ پر معطوف ہے، یعنی اہل سنت کے اصول میں سے یہ بات بھی ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔
اس کے لیے وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استدلال کرتے ہیں ۔ مثلاً قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْہُمْ اِیْمَانًا وَّ ہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ﴾ (التوبۃ:۱۲۴)
’’پھر وہ لوگ جو ایمان لائے تو وہ بڑھا دیتی ہیں ان کے ایمان کو اور وہ اس سے خوش ہوتے ہیں ۔‘‘
|