Maktaba Wahhabi

464 - 552
’’دل اور زبان کے قول، دل، زبان اور اعضاء کے عمل کا نام ایمان ہے۔‘‘ مؤلف رحمہ اللہ نے دل کے لیے بھی قول وعمل قرار دیا ہے اور زبان کے لیے بھی۔ جہاں تک زبان کے قول کا تعلق ہے تو اس سے مراد نطق اور اس کے عمل سے مراد اس کی حرکات ہیں ۔ زبان کی حرکات نطق نہیں ، بلکہ نطق ان حرکات سے پیدا ہوتا ہے، بشرطیکہ وہ گونگے پن سے محفوظ ہوں ۔ دل کے قول سے مراد اس کا اعتراف اور تصدیق ہے، جبکہ اس کا عمل اس کی حرکت وارادہ سے عبارت ہے۔ مثلاً عمل میں اخلاص کا ہونا، دل کا عمل ہے، اسی طرح توکل، رجاء اور خوف۔ عمل صرف اطمینانِ قلب کا نام نہیں ہے، بلکہ دل میں حرکت بھی ہوا کرتی ہے۔ اعضاء کا عمل بالکل واضح ہے، یعنی رکوع، سجدہ، قیام اور قعدہ، پس جوارح کا عمل شرعاً ایمان قرار پائے گا، اس لیے کہ اس عمل کا حامل ایمان ہے۔ سوال: اس بات کی کیا دلیل ہے کہ ایمان ان اشیاء پر مشتمل ہوتا ہے؟ جواب: اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: ’’ایمان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لائے۔‘‘ [1] یہ دل کا قول ہے۔ جبکہ دل، زبان اور اعضاء کے عمل کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک ہے: ’’ایمان کی ستر سے کچھ زائد شاخیں ہیں ، سب سے اعلیٰ شاخ لا الٰہ الا اللہ کی شہادت دینا، اور سب سے ادنیٰ شاخ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دینا ہے اور حیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘ [2] یہ زبان کا قول وعمل اور اعضاء کا عمل ہے اور حیا قلبی عمل ہے۔ اس سے واضح ہوگیا کہ ایمان شرعی اعتبار سے ان تمام اشیاء کو شامل ہے۔ اس پر یہ ارشاد باری تعالیٰ بھی دلالت کرتا ہے: ﴿وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ﴾ (البقرۃ:۱۴۳) ’’اور نہیں ہے اللہ کہ ضائع کردے تمہارے ایمان کو۔‘‘ مفسرین کے نزدیک [3] اس سے مراد بیت المقدس کی طرف منہ کرکے ادا کی گئی نمازیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے نماز کو ایمان کا نام دیا، نماز دل اور اعضاء کا عمل بھی ہے اور زبان کا قول بھی۔ یہ اہل السنہ والجماعہ کا مذہب ہے۔
Flag Counter