Maktaba Wahhabi

324 - 552
’’اور نہ کوئی پرندہ جو اڑتا ہو اپنے دوپروں پر مگروہ امتیں ہیں تمہاری طرح کی۔‘‘ پرندہ اڑتا ہی دو پروں پر ہے، لہٰذا اس سے مقصود تاکید ہے۔ [اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکَ اَنْ تُخْرِجَ مِنْ ذُرِّیَّتِکَ بَعْثًا اِلَی النَّارِ… ] …یہ نہیں فرمایا کہ ’’اِنِّیْ اٰمُرُکَ‘‘ ’’میں تجھے حکم دیتا ہوں ۔‘‘ یہ عظمت و کبریائی کے باب سے ہے۔ جس طرح کہ بادشاہ اپنے لشکر سے کہتا ہے: بادشاہ تمہیں یہ یہ حکم دیتا ہے۔ اس سے فخر کرنا اور اپنی عظمت وبڑائی کا اظہار کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی متکبر اور عظیم ہے۔ یہ انداز قرآن میں بھی اختیار کیا گیا ہے، مثلاً ارشاد ہوتا ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَہْلِہَا﴾ (النساء: ۵۸) ’’یقینا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل لوگوں کو لوٹا دو۔‘‘ بَعْثًا اِلَی النَّارِ لشکر جہنم کی طرف۔ دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے دریافت کیا: ’’میرے رب! دوزخ کے لشکر سے کیا مراد ہے؟ اللہ فرمائے گا، ہر ایک ہزار سے نو سو ننانوے۔‘‘[1] یہ بحث بھی کلام اور صوت کے متعلق ہے ٭ ساتویں حدیث بھی اثبات کلام میں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اِلَّا سَیُکَلِّمُہُ رَبُّہُ ، وَلَیْسَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُ تَرْجُمَانٌ۔)) [2] ’’تم میں سے ہر ایک کے ساتھ اس کا رب کلام کرے گا، اس کے اور اس کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا۔‘‘ شرح:… [مَا ] …نافیہ ہے۔ [مِنْ اَحَدٍ] …مبتدا اور اس پر (مِنْ) زائدہ تاکید کے لیے داخل ہے۔ یعنی: ما منکم من احد۔ [اِلَّا سَیُکَلِّمُہُ رَبُّہُ ] …یعنی جس حالت میں اللہ تعالیٰ اس سے ہم کلام ہوگا وہ یہ ہوگی کہ ان دونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا۔ اور ایسا قیامت کے دن ہوگا۔ ترجمان سے مراد ایسا شخص ہے، جو دو مختلف زبانیں بولنے والے دو آدمیوں کے درمیان واسطہ بن کر ایک کی بات دوسرے تک اس زبان میں منتقل کرنے کا فریضہ سر انجام دے جسے وہ سمجھتا ہو۔ مترجم میں چار شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: امانت داری، جس زبان کا ترجمہ کر رہا ہے اس کا عالم ہو، جس زبان میں
Flag Counter