Maktaba Wahhabi

320 - 552
اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا اور اسے بعید خیال کرنا گناہ کبیرہ ہے، انسان پر واجب ہے کہ وہ اپنے رب کے بارے میں حسن ظن سے کام لے، اگر اس سے دعا کرے تو اس سے حسن ظن رکھے کہ وہ میری دعا کو قبول فرمائے گا، اگر شرعی تقاضوں کے مطابق اس کی عبادت کرے تو حسن ظن رکھے کہ اللہ اسے شرف قبولیت سے نوازے گا، اگر کوئی مشکل آن پڑے تو حسن ظن رکھے کہ رب تعالیٰ اسے دور فرمائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ بات جان لے کہ نصرت صبر کے ساتھ ہے، خوشحالی بدحالی کے ساتھ اور آسانی مشکل کے ساتھ ہے۔‘‘[1] اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَاِِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاo اِِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاo﴾ (انشراح: ۵۔۶) ’’یقینا مشکل کے ساتھ آسانی ہوتی ہے۔ یقینا مشکل کے ساتھ آسانی ہوتی ہے۔‘‘ اور ایک مشکل دو آسانیوں پر ہرگز غالب نہیں آسکتی۔ جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔[2] اللہ تعالیٰ کے لیے رِجل یا قدم کا اثبات ٭ پانچویں حدیث رِجل یا قدم کے اثبات میں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَا تَزَالُ جَہَنَّمُ یُلْقٰی فِیْہَا ، وَہِیَ تَقُوْلُ : ہَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ ؛ حَتّٰی یَضَعَ رَبُّ الْعِزَّۃِ فِیْہَا رِجْلَہُ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ : عَلَیْہَا قَدَمَہُ ) فَـیَـنْـزَوِيْ بَعْضُہَا إِلٰی بَعْضٍ، فَتَقُوْلُ: قَطْ قَطْ۔)) متفق علیہ [3] ’’جہنم میں لوگوں کو مسلسل پھینکا جاتا رہے گا، اور وہ کہتی رہے گی: کیا کچھ اور بھی ہے، یہاں تک کہ اللہ رب العزت اس میں اپنا پاؤں رکھے گا (دوسری روایت میں ہے: اس پر اپنا قدم رکھے گا) اس پر وہ سکڑ جائے گی اور کہہ اٹھے گی: بس بس۔‘‘ متفق علیہ [ لَا تَزَالُ جَہَنَّمُ یُلْقٰی فِیْہَا] … یہ قیامت کے دن ہوگا، یعنی اس میں لوگ اور پتھر پھینکے جائیں گے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُہَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ﴾ (البقرۃ: ۲۴) ’’بچو اس آتش جہنم سے جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔‘‘ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس میں صرف لوگوں کو پھینکا جائے گا اور پتھر اس میں پہلے سے موجود ہوں گے۔ والعلم عند اللّٰہ
Flag Counter