یُلْقٰی فِیْہَا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دوزخیوں کو جہنم میں دھکے دے کر پھینکا جائے گا، وہ اس میں عزت کے ساتھ داخل نہیں ہوں گے۔
﴿کُلَّمَا اُلْقِیَ فِیْہَا فَوْجٌ سَاَلَہُمْ خَزَنَتُہَا اَلَمْ یَاْتِکُمْ نَذِیْرٌ﴾ (الملک: ۸)
’’جب کبھی ڈالی جائے گی اس میں ان کی کوئی جماعت تو اس کے داروغے ان سے پوچھیں گے کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا؟‘‘
[وَہِیَ تَقُوْلُ : ہَلْ مِنْ مَزِیْدٍ] … (ہل) طلب کے لیے ہے، یعنی: اور لاؤ۔ بعض لوگوں کے نزدیک اس جگہ یہ استفہام نفی کے لیے ہے۔ ان کے خیال کے مطابق اس کا معنی ہوگا: اب مزید گنجائش نہیں ہے، مگر یہ معنی غلط ہے، اور اس تاویل کے بطلان کی دلیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے:
[حَتّٰی یَضَعَ رَبُّ الْعِزَّۃِ فِیْہَا رِجْلَہُ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: عَلَیْہَا قَدَمَہُ )] … یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ مزید کا مطالبہ کرے گی، اگر یہ مطلب نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم مبارک نہ رکھتا، گویا کہ وہ بڑے شوق سے مزید لوگوں کے پھینکے جانے کا مطالبہ کرے گی۔
حَتّٰی یَضَعَ رَبُّ الْعِزَّۃِ ’’رب العزت‘‘ کی تعبیر اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ عزت اور غلبہ وقدرت کا مقام ہے۔
اس جگہ (رَبُّ) صاحب کے معنی میں ہے، خالق کے معنی میں نہیں ہے، اس لیے کہ عزت اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور صفات باری تعالیٰ مخلوق نہیں ہے۔
[فِیْہَا رِجْلَہُ دوسری روایت میں ہے: ’’عَلَیْہَا قَدَمَہٗ‘‘ اس جگہ (فِیْ) اور (عَلیٰ) دونوں ایک ہی معنی میں ہیں ، بظاہر (فی) (علیٰ) کے معنی میں ہے، جیسا کہ اس ارشاد باری میں ہے: ﴿وَ لَاُوصَلِّبَنَّکُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ﴾ (طٰہٰ: ۷۱) یعنی ’’علی جذوع النخل‘‘ ’’میں تمہیں کھجوروں کے تنوں پر سولی دوں گا۔‘‘
رجل اور قدم کا معنی ایک ہی ہے، انسان کے پاؤں کو قدم سے موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اسے چلتے وقت آگے کیا جاتا ہے اس لیے کہ جب تک کوئی اپنے پاؤں کو آگے نہیں بڑھائے گا، چل نہیں پائے گا۔
[فَـیَـنْـزَوِيْ بَعْضُہَا إِلٰی بَعْضٍ] … یعنی باری تعالیٰ کی عظمت کی وجہ سے جہنم کا ایک حصہ دوسرے حصے کے ساتھ مل جائے گا اور وہ سکڑ جائے گی۔
[فَتَقُوْلُ: قَطْ قَطْ۔] … یعنی: میرے لیے کافی ہے، میرے لیے کافی ہے۔ اب میں اور کسی کو نہیں چاہتی۔ اس حدیث میں مندرجہ ذیل صفات کا ذکر ہے۔
۱۔ جمادات کے بات کرنے کا اثبات اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی بنیاد پر ہے: ’’وَہِیَ تَقُوْلُ‘‘ اسی طرح ’’فَتَقُوْلُ قَطْ قَطْ‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی دلیل ہے جس نے ہر چیز کو قوت گویائی دی۔
۲۔ دوزخ سے خبردار کرنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی وجہ سے: لَا تَزَالُ جَہَنَّمُ یُلْقٰی فِیْہَا وَہِیَ تَقُوْلُ: ہَلْ
|