Maktaba Wahhabi

456 - 552
یہ عبودیت پہلی سے بھی زیادہ خاص ہے۔ انسان اور اس کی قدرت کا خالق اللہ ہے ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((وَلِلْعبَادِ قُدْرَۃٌ عَلٰی اَعْمَالِہِمْ ، وَلَہُمْ اِرَادَۃٌ، وَاللّٰہُ خَالِقُہُمْ وَخَالِقُ قُدْرَتِہِمْ وَاِرَادَتِہِمْ۔)) ’’بندوں کو اپنے اعمال پر قدرت حاصل ہے، اور وہ ارادہ بھی رکھتے ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ ان کا بھی خالق ہے اور ان کی قدرت و ارادہ کا بھی۔‘‘ شرح:…[وَلِلْعبَادِ قُدْرَۃٌ عَلٰی اَعْمَالِہِمْ ، وَلَہُمْ اِرَادَۃٌ] … جبریہ کو اس سے اختلاف ہے، وہ کہتے ہیں کہ بندوں کو نہ تو کوئی قدرت حاصل ہے اور نہ ہی ان کا کوئی ارادہ ہے، وہ اپنے اعمال کے لیے مجبور محض ہیں ۔ [وَاللّٰہُ خَالِقُہُمْ وَخَالِقُ قُدْرَتِہِمْ وَاِرَادَتِہِمْ] …اس سے قدریہ کو اختلاف ہے، ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ بندے کے فعل، اس کے ارادہ اور قدرت کا خالق نہیں ہے۔ گویا کہ مؤلف رحمہ اللہ اس عبارت کے ساتھ بندے کے فعل کی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہونے کی وجہ کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں ؛ اور وہ یہ کہ اس کا فعل قدرت وارادہ سے صادر ہوتا ہے، اور قدرت و ارادہ کا خالق اللہ ہے اور جو کچھ مخلوق سے صادر ہوگا وہ بھی مخلوق ہو گا۔ وہ اس سے اس بات کی طرف بھی اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ بندے کا فعل اجباری نہیں بلکہ اختیاری ہوتا ہے، اس لیے کہ وہ قدرت و ارادہ سے صادر ہوتا ہے، اگر قدرت و ارادہ نہ ہوتے تو اس سے فعل صادر نہ ہوتا، اور اگر صرف ارادہ ہی نہ ہوتا، تو بھی اس سے فعل کا صدور نہ ہوتا۔ اور اگر اس کا فعل اجباری ہوتا تو اس کے لیے قدرت اور ارادہ شرط نہ ہوتے۔ ٭ پھر اس کے لیے استدلال کرتے ہوئے مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ﴿لِمَنْ شَآئَ مِنْکُمْ اَنْ یَّسْتَقِیْمَo وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِِلَّا اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَo﴾ (التکویر:۲۹۔۲۸) ’’اس کے لیے جو تم میں سے سیدھا چلنا چاہے، اور تم نہیں چاہ سکتے ہو مگر صرف اس صورت میں کہ اللہ رب العالمین چاہے۔‘‘ [لِمَنْ شَآئَ مِنْکُمْ اَنْ یَّسْتَقِیْمَ۔] …اس سے جبر یہ کا ردّ ہوتا ہے۔ اور[وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِِلَّا اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ] …سے قدریہ کا۔
Flag Counter