دوسرا گروہ: جہمیہ وغیر ہم سے جبریہ کا ہے، جن کے نزدیک بندوں کے افعال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور بندے حقیقتاً اس کے فاعل نہیں ہیں ، ان کی طرف افعال کو ازراہ تجوز مضاف کیا گیا ہے۔ وگرنہ فاعل حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔
جبریہ کے اس قول کا نتیجہ وحدۃ الوجود کی صورت میں سامنے آتا ہے اور یہ کہ مخلوق ہی اَصلاً اللّٰہ ہے۔ اس قول کا یہ بد ترین نتیجہ بھی نکلے گا کہ زنا، سرقہ، شراب نوشی اور ظلم و اعتداء جیسے افعال کو اللہ تعالیٰ کی طرف مسنوب کرنا پڑے گا۔ والعیاذ باللّٰہ۔
مؤلف رحمہ اللہ کے قول: ((والعباد فاعلون حقیقۃً واللہ خالق أفعالہم)) سے جبریہ اور قدریہ کی تردید کرنا مقصود ہے۔
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((وَالْعَبْدُ ہُوَ الْمُؤْمِنُ وَالْکَافِرُ، وَالْبَرُّ وَالْفَاجِرُ ، وَالْمُصَلِّیْ وَالصَّائِمُ۔))
’’بندہ مومن بھی ہوتا ہے اور کافر بھی، نیک بھی ہوتا ہے اور بد بھی، نمازی بھی ہوتا ہے اور روزے دار بھی۔‘‘
شرح:…یعنی ایمان وکفر، نیکی اور بدی، صلاۃ و صیام جیسے اوصاف کے ساتھ بندے کو موصوف کیا جاتا ہے، کسی اور کو نہیں بندہ ہی مومن ہوتا ہے اور بندہ ہی کافر، وہی نیک ہوتا ہے اور وہی بد، نمازی بھی بندہ ہوتا ہے اور روزے رکھنے کا پابند بھی بندہ ہی ہوتا ہے۔ بندہ ہی زکوٰۃ ادا کرتا، حج و عمرہ کرتا اور دیگر فرائض شرعیہ ادا کرتا ہے اور بندہ ہی ان امور سے انحراف کرتا ہے۔
بندے کو اس فعل سے موصوف نہیں کیا جا سکتا جو حقیقتاً اس کا فعل نہ ہو۔
جملہ: ’’جو حقیقتاً اس کا فعل نہ ہو۔‘‘
جبر یہ کی تردید کو متضمن ہے۔
اس جگہ عبودیت سے مراد دعبودیت عامہ ہے، اس لیے کہ عبودیت کی دو قسمیں ہیں : عبو دیت عامہ اور عبودیت خاصہ۔
عبودیت عامہ: یہ اللہ تعالیٰ کے امر کونی کے سامنے سر جھکا دینے سے عبارت ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًاo﴾ (مریم:۹۳)
’’زمین و آسمان میں رہنے والے تمام کے تمام اپنے رب کے سامنے بندے بن کر حاضر ہونے والے ہیں ۔‘‘
عبودیت خاصہ: یہ اللہ تعالیٰ کے امر شرعی کے سامنے سر تسلیم خم کر دینے سے عبارت ہے۔ جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
﴿وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا﴾ (الفرقان:۶۳)
’’اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں ۔‘‘
نیز…﴿تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ﴾ (الفرقان:۱)
’’بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا۔‘‘
|