’’یہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اپنے رب کی آیتوں کا اور اس کی ملاقات کا، پس ضائع ہوگئے ان کے اعمال، پس ہم قیامت کے دن ان کے لیے وزن قائم نہیں کریں گے۔‘‘
مگر اس آیت سے یہ استدلال کرنا متنازع ہے، کہا جاسکتا ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ : ﴿فَلَا نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا﴾ کا معنی یہ ہے کہ ان کے اعمال کو کوئی قدرو منزلت حاصل نہیں ہوگی۔
اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں آتا ہے کہ وہ پیلو کے درخت پر مسواک بنانے کے لیے چڑھے ان کی پنڈلیاں بہت پتلی تھیں ، وہ تیز ہو اکی وجہ سے لرزنے لگے، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ منظر دیکھ کر ہنسنے لگے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم کس چیز سے ہنستے ہو؟‘‘ انہوں نے جواب دیا، ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی پنڈلیوں کے پتلے پن کی وجہ سے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، یہ میزان میں أحد پہاڑ سے بھی وزنی ہوں گی۔‘‘[1]
اس طرح وزن کے حوالے سے تین چیزیں سامنے آگئیں : عمل، عامل اور صحائف۔
بعض علماء کے نزدیک ان میں تطبیق کی یہ صورت ہے کہ بعض لوگوں کے اعمال کا وزن ہوگا، بعض کا اپنا اور بعض ایسے بھی ہوں گے جن کے اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا۔
جبکہ بعض دوسرے علماء ان میں اس طرح تطبیق دیتے ہیں کہ اعمال کا وزن کرنے سے مراد ان کا صحائف میں اندراج کی صورت میں وزن کرنا ہے، البتہ بعض ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کا اپنا وزن کیا جائے گا۔
لیکن اگر بنظر غائر دیکھاجائے تو معلوم ہوگا کہ اکثر نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ وزن اعمال کا ہوگا، جبکہ بعض مخصوص لوگوں کے اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا یا خودان کا۔
مگر جو کچھ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث اور پرزے والے شخص کے واقعہ میں وارد ہوا ہے تویہ ایسا معاملہ ہوسکتا ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے خاص کر دے۔
نیکیوں کا گناہوں سے بڑھنا انسان کی کامیابی کا ذریعہ ہو گا
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
﴿فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo﴾ (المؤمنون:۱۰۲)
’’پس جس کے ترازو بھاری ہوگئے تو یہی وہ لوگ ہیں جو فلاح پائیں گے۔‘‘
|