رزق کی اقسام
رزق کی دو قسمیں ہیں : رزق عام اور رزق خاص۔
رزق عام… ہر وہ رزق ہے جس سے بدن فائدہ اٹھاتا ہے، وہ حلال ہو یا احرام، اور مرزوق مسلمان ہو یا کافر۔ اسی لیے سفارینی فرماتے ہیں : [1]
وَالرِّزْقُ مَا یَنْفَعُ مِنْ حَلَالٍ أَوْ ضِدُّہُ فَحُلْ عَنِ الْمُحَالِ
لِأَنَّہُ رَازِقُ کُلِّ الْخَلْقِ وَلْیَمْسَ مَخْلُوْقٌ بِغَیْرِ رِزْقٍ
’’رزق وہ ہے جو فائدہ دے وہ حلال ہو یا حرام مگر تو حرام سے دور رہ، اس لیے کہ وہ ساری مخلوق کا رازق ہے اور کوئی بھی مخلوق رزق کے بغیر نہیں ہے۔‘‘
یہ اس لیے ہے کہ اگر آپ رزق سے مراد عطاء حلال لیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حرام کھانے والوں کو رزق نہیں ملتا، حالانکہ اللہ نے انہیں وہ سب کچھ دے رکھا ہے جس سے ان کی بدنی اصلاح ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ رزق دو طرح کا ہوتا ہے: طیب بھی اور خبیث بھی۔ اسی لیے ارشاد ہوتا ہے:
﴿قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ﴾ (الاعراف: ۳۲)
’’ان سے پوچھیں کہ اللہ کی بنائی ہوئی زینت کی چیزوں کو کس نے حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہیں اور اس کا پیدا کردہ پاکیزہ رزق۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ﴿وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ﴾ فرمایا ہے، صرف الرزق‘‘ نہیں فرمایا جہاں تک رزق خبیث کا تعلق ہے تو وہ حرام ہے۔
رہا رزق خاص، تو اس سے مراد وہ رزق ہے جس کی وجہ سے دین قائم رہتا ہے، مثلاً علم نافع، عمل صالح اور رب تعالیٰ کی اطاعت کے لیے معین ومددگار بننے والے دیگر امور۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (الرزاق) فرمایا ’’رازق‘‘ نہیں فرمایا، اس لیے کہ اس کے رزق کی بھی بہتاب ہے اور جنہیں وہ رزق دیتا ہے ان کی بھی کوئی کمی نہیں ، وہ جنہیں رزق عطا کرتا ہے ان کی تعداد اور انواع واجناس کا کوئی شمار نہیں ۔
﴿وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَ مَسْتَوْدَعَہَا﴾ (ہود: ۶)
’’اور زمین پر چلنے پھرنے والا کوئی بھی نہیں ہے مگر اس کا رزق اللہ کے ذمہ ہے، اور وہ اس کے رہنے اور سونپے جانے کی جگہ کو جانتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ سب کو ان کے حسب مال رزق عطا کرتا ہے۔
اب اگر کوئی یہ کہے کہ جب رزاق اللہ تعالیٰ ہے تو کیا مجھے حصول رزق کے لیے بھاگ دوڑ کرنی چاہیے یا پھر میں گھر میں پڑا رہوں اور رزق میرے پاس از خود آتا رہے گا؟
|