Maktaba Wahhabi

494 - 552
خلیفہ بنایا تھا۔ اور یہ کہ وہ دوسروں سے زیادہ خلافت کا حق دار تھا، اس لیے کہ وہ لوگ خیر القرون کے لوگ نہیں تھے، ان سے ظلم و زیادتی کا صدور بھی ہوا، اسلامی تعلیمات سے انحراف کا بھی، اور فسق و فجور کا بھی، جس کی وجہ سے دوسرے لوگ ان سے زیادہ خلافت کا استحقاق رکھتے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿وَ کَذٰلِکَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضًا بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ﴾ (الانعام:۱۲۹) ’’اور کسی طرح ہم بعض ظالموں کو بعض پر مسلط کر دیتے ہیں اس وجہ سے کہ وہ برے اعمال کیا کرتے تھے۔‘‘ یہ بات آپ کے علم میں رہے کہ افضلیت کی گزشتہ ترتیب کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ان میں سے کسی غیر کو اگر کسی چیز میں اس پر فضیلت حاصل ہے تو اسے ہر چیز میں اس پر فضیلت حاصل ہے، بلکہ مفضول کو کوئی ایسی فضیلت بھی حاصل ہو سکتی ہے جس میں کوئی بھی اس کا شراکت دار نہیں ہو سکتا، خلفاء اربعہؓ یا کسی اور کا کسی ایسی خوبی کے ساتھ ممتاز ہونا جس کے ساتھ وہ کسی دوسرے پر فضیلت رکھتا ہو افضلیت مطلقہ پر دلالت نہیں کرتا: لہٰذا اطلاق اور تقیید میں فرق ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔ اہل سنت کی اہل بیت سے محبت ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((وَیُحِبُّوْنَ اَہْلَ بَیْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَیَتَوَلَّوْنَہُمْ۔)) ’’اہل سنت اہل بیت سے محبت کرتے اور انہیں اپنے اولیاء گردانتے ہیں ۔‘‘ شرح:…یعنی اہل سنت اہل بیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں ۔ اور اس محبت کی بنیاد دو چیزیں ہیں ۔ ایمان اور ان کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرابت داری۔ اہل سنت ان سے کبھی بھی کراہت نہیں کرتے، مگر وہ شیعہ کی طرح یہ بھی نہیں کہتے کہ جو شخص ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے وہ علی رضی اللہ عنہ سے نفرت کرتا ہے اس بناء پر ہمارے لیے ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ سے نفرت کی بنیاد پر علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرنا ممکن نہیں ہے۔ اور نہ ہی ان دونوں کو علی رضی اللہ عنہ کا دشمن تسلیم کرنا ممکن ہے۔ اور یہ ہو بھی کس طرح سکتا ہے جبکہ وہ خود منبر پر تشریف فرما ہو کر ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کی تعریف میں رطب اللسان رہا کرتے تھے۔ہم اہل سنت اہل بیت کی محبت پر اللہ تعالیٰ کو گواہ بناتے ہیں ۔ ہم ان سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت کی وجہ سے محبت کرتے ہیں ۔ یاد رہے قرآنی نص کی بنیاد پر ازواج مطہرات بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں داخل ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَہَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَ اُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا o وَ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْکُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًاo یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ یُّضٰعَفْ لَہَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًاoوَ مَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ تَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِہَآ اَجْرَہَا مَرَّتَیْنِ وَ اَعْتَدْنَا لَہَا رِزْقًا کَرِیْمًا o یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآئِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَــلَا تَخْضَعْنَ
Flag Counter