[وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآئَ ] … (یُحِیْطُوْنَ) میں ضمیر خلق کی طرف لوٹتی ہے جس کی دلیل: ﴿لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ﴾ ہے، یعنی آسمانوں اور زمین والے اللہ کے علم سے کسی بھی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جو اللہ چاہے۔
[مِّنْ عِلْمِہٖٓ ]…اس کے علم سے مراد اس کی ذات اور صفات کا علم بھی ہو سکتا ہے، یعنی ہم لوگ اللہ تعالیٰ، اس کی ذات اور اس کی صفات کے بارے میں وہی کچھ جانتے ہیں جس کی اس نے ہمیں تعلیم دی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس جگہ علم بمعنی معلوم ہو، یعنی وہ اس کی معلومات کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جو وہ چاہے اور یہ دونوں معانی صحیح ہیں ، ویسے دوسرا معنی زیادہ عام ہے، اس لیے کہ اس کی معلومات میں اس کی ذات وصفات اور علاوہ ازیں کا علم بھی داخل ہے۔
[اِلَّا بِمَا شَآئَ] … یعنی انہیں تعلیم کردہ علم سے جتنا اور جو چاہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے اسماء وصفات اور اپنے کونی اور شرعی احکام میں سے ہمیں بہت ساری چیزوں کا علم دیا ہے، مگر جو کچھ اس کے علم میں ہے یہ بہت کچھ اس کی نسبت سے بہت کم ہے، جیسا کہ فرمایا گیا:
﴿وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًاo﴾ (الاسراء: ۸۵)
’’لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ فرما دیں کہ روح میرے رب کے حکم میں سے ہے اور تمہیں بہت کم علم دیا گیا ہے۔‘‘
[وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ] …(وَسِعَ) شَمَلَ کے معنی میں ہے، یعنی اس کی کرسی نے آسمانوں اور زمین کو گھیر رکھا ہے اور یہ کہ وہ ان سے بہت بڑی ہے اس لیے کہ اگر وہ ان سے بڑی نہ ہوتی تو انہیں گھیر نہ پاتی۔‘‘
کرسی اللہ تعالیٰ کے قدموں کی جگہ ہے
کرسی کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’وہ اللہ تعالیٰ کے دو قدموں کی جگہ ہے۔‘‘[1]
کرسی عرش نہیں ہے عرش کرسی سے بڑا ہے: نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں کرسی کی نسبت سے اس گول چیز جیسی ہیں جسے وسیع بیابان میں پھینک دیا جائے اور بے شک کرسی پر عرش کی فضیلت اس گول چیز پر وسیع وعریض بیابان کی فضیلت جیسی ہے۔‘‘[2]
|