Maktaba Wahhabi

199 - 552
ارشاد ربانی: ﴿لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ﴾ سے آدم علیہ السلام کے اس عزو شرف کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ اللہ نے اسے اپنے ہاتھوں سے پیدا فرمایا۔ علماء کا قول ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے تورات اپنے ہاتھ سے لکھی اور جنت عدن کے پودے اپنے ہاتھ سے لگائے۔‘‘[1] اس مناسبت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی ذہن میں رہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا۔‘‘[2] قبل ازیں ہم اس کی یہ صحیح توجیہ بتا چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی پسندیدہ صورت میں پیدا فرمایا اور تشریف وتکریم کے طور پر اس کی اضافت اپنی ذات کی طرف فرما دی۔ جس طرح کہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی، بیت مشرف اور مساجد کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے۔ اس بارے میں دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد حقیقی صورت ہے مگر اس سے تماثل لازم نہیں آتا۔ دوسری آیت: ﴿وَ قَالَتِ الْیَہُوْدُ یَدُ اللّٰہِ مَغْلُوْلَۃٌ غُلَّتْ اَیْدِیْہِمْ وَ لُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ یُنْفِقُ کَیْفَ یَشَآئُ﴾ (المائدۃ: ۶۴) ’’اور یہودیوں نے کہا کہ اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے۔ ان کے ہاتھ باندھے جائیں اور اس قول کی وجہ سے ان پر لعنت ہو، بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں وہ خرچ کرتا ہے جس طرح چاہتا ہے۔‘‘ شرح:…[الْیَہُوْدُ]… موسیٰ علیہ السلام کے پیروکار۔ انہیں یہ نام ان کے اس قول کی وجہ سے دیا گیا: ﴿اِنَّا ہُدْنَآ اِلَیْکَ﴾ (الاعراف: ۱۵۶)’’یقینا ہم نے تیری طرف رجوع کیا۔‘‘ اس بناء پر یہ اسم عربی ہوگا، اس لیے کہ ھاد یہود بمعنی واپس لوٹنا عربی لفظ ہے۔ ایک دوسرے قول کی رو سے اس کا اصل یہوذ ہے، جو کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام تھا، اس کی طرف منسوب لوگوں کو یہود کہا جاتا ہے۔ تعریب کے وقت ذال، دال میں تبدیل ہونے سے یہود بن گیا۔ اس لفظ کا اصل کچھ بھی ہو ہمیں اس سے چنداں غرض نہیں ہے، البتہ ہم یہ جانتے ہیں کہ یہود بنی اسرائیل کا ایک گروہ ہے جس کا شمار حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متبعین میں ہوتا ہے۔ یہود کا اللہ تعالیٰ بُرا کرے کہ انہوں نے اللہ کو معیوب اوصاف سے متصف کیا یہودیوں کا یہ گروہ بڑا سرکش اور انسانیت سے بیزار واقع ہوا ہے جو کہ ان پر فرعون کے تسلط اور سرکشی کا نتیجہ ہے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو برے برے اوصاف کے ساتھ موصوف گردانتے ہیں ۔ اللہ ان کا برا کرے، یہ اسی کے مستحق ہیں ۔ مثلاً انہوں نے کہا: ﴿یَدُ اللّٰہِ مَغْلُوْلَۃٌ﴾ ’’اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے۔‘‘ یعنی وہ بخیل ہے، اپنے ہاتھ سے کسی کو کچھ نہیں
Flag Counter