Maktaba Wahhabi

198 - 552
[لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ]… اللہ تعالیٰ نے (لمن خلقت) نہیں فرمایا، اس لیے کہ اس جگہ اس سے مراد آدم علیہ السلام ہیں ، اور یہ ان کے اس وصف کے اعتبار سے ہے جس میں کوئی دوسرا ان کا شریک نہیں ہے اور وہ یہ کہ اللہ نے انہیں اپنے دو ہاتھوں سے پیدا فرمایا، نہ کہ ان کے وجود کے اعتبار سے۔ اسی لیے جب ابلیس نے آدم علیہ السلام کی توہین کرتے ہوئے ان کی قدر ومنزلت کو گھٹانا چاہا تو وہ کہنے لگا: ﴿ئَ اَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا﴾ (الاسراء: ۶۱) ’’کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا؟‘‘ قاعدہ یہ ہے کہ جب ذوی العقول کو (ما) کے ساتھ تعبیر کیا جائے گا تو اس میں معنی صفت کو ملحوظ رکھا جائے گا نہ کہ معنی عین اور شخص کو۔ اسی سے یہ ارشاد باری ہے: ﴿فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ﴾ (النساء: ۳) ’’پھر نکاح کرو تم جو پسند آئیں تمہیں دوسری عورتوں سے۔‘‘ اس جگہ اللہ نے (ما) فرمایا، (من) نہیں فرمایا، اس لیے کہ مراد عورت کا وجود نہیں بلکہ اس کی صفت ہے۔ اس جگہ فرمایا: ﴿مَا خَلَقْتُ﴾ یعنی جس عظیم موصوف کو میں نے یہ عزت دی کہ اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا فرمایا۔ ﴿لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ﴾ یہ قائل کے اس قول کی طرح ہے: صنعتُ ہذا بیدی،’’میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بنایا۔‘‘ اس جگہ ید (ہاتھ) صفت کا آلہ ہے۔ یعنی جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا فرمایا، یہ تثنیہ کا صیغہ ہے اور نون تثنیہ کو اضافت کی وجہ سے حذف کر دیا گیا ہے، ہم تثنیہ اور جمع مذکر سالم کو اعراب دیتے وقت کہتے ہیں ، نون اسم مفرد میں تنوین کے عوض میں ہے اور عوض معوض کا حکم رکھتا ہے، جس طرح اضافت کے وقت تنوین حذف ہو جاتی ہے، اسی طرح اضافت کے وقت تثنیہ اور جمع کا نون بھی حذف ہو جاتا ہے۔ آیت میں ابلیس کو اس کے اس جرم پر ڈانٹ پلائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جسے اپنے ہاتھوں سے پیدا فرمایا اس نے اسے سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ آیت میں اللہ تعالیٰ کے لیے صفت خلق کا اثبات کیا گیا ہے۔ اس میں اللہ کے لیے دو ہاتھوں کا بھی اثبات کیا گیا ہے، جن کے ساتھ وہ فعل بجا لاتا ہے۔ جس طرح اس جگہ فعل خلق ہے۔ اور جن کے ساتھ وہ قیامت کے دن زمین کو اپنے قبضہ میں لے لے گا۔ ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ﴾ (الروم: ۶۷) ’’اور انہوں نے کماحقہ اللہ تعالیٰ کی قدر شناسی نہیں کی اور قیامت کے دن ساری کی ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی۔‘‘ جن کے ساتھ وہ اشیاء کو پکڑتا بھی ہے، اللہ تعالیٰ صدقہ اپنے ہاتھ میں لیتا اور اسے اس طرح بڑھاتا ہے جس طرح کوئی انسان اپنے بچھڑے کو پالتا ہے۔[1]
Flag Counter