’’کہہ دو! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو پھر میری اتباع کرواللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف کر دے گا، اور اللہ بڑا معاف کرنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے۔‘‘
اہل کتاب و السنہ والجماعہ کی وجہ تسمیہ
’’ولہذا‘‘ اس میں لام تفضیل کا ہے ۔ یعنی چونکہ وہ کلام اللہ کو ترجیح دیتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو مقدم رکھتے ہیں ۔ لہٰذا انہیں ’’سموا أہل الکتاب و السنۃ‘‘ انہیں اہل کتاب و سنت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
جو شخص کتا ب و سنت کا تو مخالف ہو اور دعویٰ یہ کرے کہ وہ کتاب وسنت والوں میں سے ہے، تو وہ جھوٹا ہے، اس لیے کہ جو شخص کسی چیز والوں میں سے ہو ا، وہ اسے لازم بھی پکڑتا اور اس کا التزام بھی کرتا ہے۔
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((وان کان لفظ الجماعۃ قد صار إسمًا لنفس القوم المجتمعین۔))
’’اگر چہ لفظ جماعت مجتمع قوم کا نام بن گیا ہے۔‘‘
شرح:…یہ اس لفظ کا دوسرا استعمال ہے، وہ اس طرح کہ لفظ جماعۃ ایک اعتبار سے مجتمع قوم کا نام بھی بن گیا ہے۔
مؤلف رحمہ اللہ کی اس تقریر کی بنیاد پر ہمارے قول: ’’اہل السنۃ و الجماعۃ‘‘ میں لفظ (الجماعۃ)، (السنۃ) پر معطوف ہو گا، اور اسی لیے مؤلف رحمہ اللہ نے اسے’’سموا اہل الجماعۃ‘‘ سے تعبیر کیا، اور ’’سمواجماعۃٌ‘‘ نہیں فرمایا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ جماعت ہیں تو پھر اہل جماعت کس طرح ہوئے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جماعت اصل میں اجتماع سے عبارت ہے، اس طرح اہل الجماعۃ کامعنی ہوگا: اہل الاجتماع مگر اسم جماعت کو نقل عرفی کے اعتبار سے مجتمع قوم کی طرف منتقل کر دیا گیا۔
اصل ثالث: اجماع
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((والاجماع ہو الاصل الثالث الذی یعتمد علیہ فی العلم والدین۔))
’’اجماع تیسرا اصول ہے جس پر علم اور دین میں اعتماد کیا جاتا ہے۔‘‘
شرح:…اس سے مراد تیسری دلیل ہے، اس لیے کہ ادلۂ احکام کے اس حیثیت سے احکام کے اصول ہیں کہ وہ ان پر مبنی ہیں ۔ اصل اول کتاب اور اصل ثانی سنت ہے، جبکہ اجماع اصل ثالث ہے۔ یہی وہ ہے کہ انہیں ’’اہل الکتاب و السنۃ و الجماعۃ‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
گویا کتاب وسنت اور اجماع وہ تین اصول ہیں جن پر علم اور دین میں اعتماد کیا جاتا ہے۔
|