Maktaba Wahhabi

396 - 552
[لاظلّ اِلاظلّہ] … یعنی مگر وہ سایہ جسے اللہ تعالیٰ تخلیق کرے گا۔ اس کا وہ معنی نہیں ہے جس طرح بعض لوگوں کو وہم ہوا کہ اس سے مراد ذات باری تعالیٰ کا سایہ ہے۔ اس لیے کہ یہ معنی باطل ہے۔ اور باطل اس لیے کہ یہ اس امر کو مستلزم ہے کہ اس وقت سورج اللہ تعالیٰ کے اوپر ہوگا۔ ہم دنیا میں اپنے سائے کا خود آپ بندوبست کر لیتے ہیں ، مگر قیامت کے دن صرف وہی سایہ ہوگا جسے اللہ تعالیٰ پیدا فرمائے گا، تاکہ اس کے بندوں سے جسے وہ چاہے وہ اس سائے میں جگہ حاصل کر سکے۔ روزِ قیامت اعمال کے مطابق لوگ پسینے میں شرابور ہوں گے ٭ قیامت کے دن وقوع پذیر ہونے والا چوتھا کام، جس کا مؤلف رحمہ اللہ نے اس طرح ذکر کیا ہے: شرح:…[وَیَلْجِمْہُمُ الْعَرَقُ۔]… یعنی پسینہ ان کی اس جگہ تک پہنچ جائے گا جس جگہ گھوڑے کو لگام دی جاتی ہے۔ اور وہ جگہ منہ ہے مگر یہ وہ انتہائی مقام ہے جہاں تک پسینہ پہنچے گا، اس لیے کہ کسی کا پسینہ ٹخنوں تک، کسی کا گھٹنوں تک، کسی کا کمر تک اور کسی کا منہ تک پہنچے گا۔ لوگ پسینہ کے اعتبار سے مختلف ہوں گے۔ اور یہ پسینہ گرمی کی شدت کی وجہ سے آئے گا، اس لیے کہ رش بہت زیادہ ہوگا، سختی کا عالم ہوگا اور سورج انتہائی قریب ہوگا، جس کی وجہ سے لوگوں کو پسینہ آئے گا مگر وہ ان کے اعمال کے مطابق آئے گا۔ سوال: یہ کس طرح ہوسکتا ہے جبکہ لوگ ایک ہی جگہ میں موجود ہوں گے؟ جواب: ہم نے ایک اصولی قاعدہ وضع کر دیا ہے جس کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ اور وہ یہ کہ غیبی امور میں کیوں ؟ اور کس طرح؟ کی بحث چھیڑے بغیر ان پر ایمان لانا، اور ان کی تصدیق کرنا واجب ہوا کرتا ہے، اس لیے کہ یہ ہماری عقلوں سے ماوراء ہیں ، ہمارے لیے ان کا ادراک کرنا بھی نا ممکن ہے اور ان کا احاطہ کرنا بھی۔ اگر ایسے دو آدمیوں کو ایک ہی قبر میں دفن کر دیا جائے جن میں سے ایک مومن ہو اور دوسرا کافر، تو مومن کو اس کے استحقاق کے مطابق نعمتوں سے نوازا جائے گا اور کافر کو اس کے استحقاق کے مطابق عذاب دیا جائے گا۔ حالانکہ وہ ایک ہی قبر میں مدفون ہیں ۔ ہم قیامت کے دن کے پسینے کے بارے میں بھی یہی کچھ کہیں گے۔ سوال: کیا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پسینے کی اونچائی کے اعتبار سے مختلف لوگوں کو الگ الگ جگہوں میں جمع کر دے گا، مثلاً جنہیں منہ تک پسینہ آئے گا انہیں ایک جگہ میں جنہیں ٹخنوں تک آئے گا انہیں دوسری جگہ اور جنہیں گھٹنوں تک آئے گا انہیں تیسری جگہ میں …؟ جواب: ہم یہ بات بالجزم تو نہیں کہہ سکتے، واللہ اعلم، البتہ اس کے امکان کو ردّ نہیں کیا جا سکتا اور اس کی نظیر اہل ایمان کو عطا کردہ نور ہے جو ان کے آگے آگے اور دائیں طرف دوڑ رہا ہو گا، جبکہ کفار اندھیرے میں پڑے ہوں گے۔
Flag Counter