Maktaba Wahhabi

255 - 552
وتخصیص ہے۔ نیز یہ بتانا ہے کہ وہ عرش کے علاوہ کسی چیز پر مستوی نہیں ہے۔ ﴿اَلرَّحْمٰنُ﴾ کے ذکر سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ وہ علو وعظمت کے باوصف رحمت کے ساتھ موصوف ہے۔ پانچواں مقام: ﴿ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ الرَّحْمٰنُ﴾ (الفرقان: ۵۹) ’’پھر رب رحمان عرش پر مستوی ہوا۔‘‘ شرح:…[الرَّحْمٰنُ] … ﴿اسْتَوَی﴾ کا فاعل ہے۔ چھٹا مقام: ﴿اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾ (السجدہ: ۴) ’’اللہ تو وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اسے چھ دنوں میں پیدا فرمایا، پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔‘‘ شرح:…اس آیت کی تفسیر میں بھی وہی کچھ کہا جائے گا جو ہم سورۃ الاعراف اور سورئہ یونس کی دو آیتوں کی تفسیر کے ضمن میں لکھ آئے ہیں ، البتہ اس جگہ ﴿وَ مَا بَیْنَہُمَا﴾ کا اضافہ ہے یعنی آسمان اور زمین کے درمیان جو کچھ بھی ہے۔ ان دونوں کے درمیان مخلوقات میں سے کچھ کا ہمیں علم ہے۔ مثلاً سورج، چاند ستارے اور بادل، جبکہ بعض ابھی تک پردۂ خفاء میں ہیں ۔ ساتواں مقام: ﴿ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلٰی الْعَرْشِ﴾ (الحدید:۴) ’’وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر وہ عرش پر مستوی ہوگیا۔‘‘ شرح:…یہ سات مقامات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے استوی کو (علی) کے ساتھ متعدی فرمایا ہے۔ اصل مادہ س و ی ہے علماء فرماتے ہیں ، اس مادہ (س و ی) کا اصل کمال پر دلالت کرتا ہے، مثلاً ﴿الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی﴾ (الاعلیٰ: ۲) ’’یعنی اس نے اپنی مخلوق کو کامل بنایا۔‘‘ اس مادہ کو عربی زبان میں چار طرح سے استعمال کیا جاتا ہے۔ (الیٰ) کے ساتھ متعدی، (علیٰ) کے ساتھ متعدی، واؤ کے ساتھ متعدی اور مجرد کے طور پر (علیٰ) کے ساتھ متعدی کرنے کی مثال یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اسْتَوٰی عَلٰی الْعَرْشِ﴾ (الحدید: ۴) اور اس کا معنی ہے: علی اور استقر۔ وہ بلند ہوا، اس نے قرار پکڑا۔ (الیٰ) کے ساتھ متعدی ہونے کی مثال یہ ارشاد ربانی ہے: ﴿ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآئِ فَسَوّٰہُنَّ سَبْعَ سَمَوٰتٍ﴾ (البقرۃ: ۲۹) ’’پھر اس نے آسمان کی طرف قصد کیا اور انہیں برابر کیا سات آسمان۔‘‘ کیا اس کا معنی بھی (علیٰ) کے ساتھ متعدی جیسا ہے؟اس بارے مفسرین کا اختلاف ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک دونوں کا ایک ہی معنیٰ ہے، تفسیر ابن جریر رحمہ اللہ کا ظاہر مفہوم یہی ہے۔ اس طرح: ﴿اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآئِ﴾ یعنی اس نے آسمان کی طرف ارادہ کیا، اس جگہ استواء قصد وتوجہ کے معنی کو متضمن ہے، اس لیے کہ وہ (الیٰ) کے ساتھ متعدی ہے۔ واؤ کے ساتھ مقرون ہونے کی مثال عربوں کا یہ قول ہے: استوی الماء والخشبۃ۔ یعنی پانی اور لکڑی مساوی
Flag Counter