شرح:… [ اَمَّا بَعْدُ] …(اما) اسم شرط اور فعل شرط کا نائب ہے، اس کی تقدیری عبارت اس طرح ہے، مہما یکن من شیء اور (اما بعد) کی تقدیری عبارت ہے: مہما یکن فی شیء بعد ہذا، فہذا۔
اس بنا پر فاء جواب کا ربط پیدا کرنے کے لیے ہے اور اس کے بعد کا جملہ جواب شرط کے طور پر محل جزم میں ہے۔ میرے نزدیک اس امر کا بھی احتمال ہے کہ ’’امابعد، فہذا‘‘ میں اما حر ف شرط اور تفصیل ہو یا تفصیل سے مجرد صرف حرف شرط ہو، اس طرح تقدیری عبارت ہوگی۔ ’’امابعد ذکر ہذا‘‘
اعتقاد کا لغوی اور اصطلاحی معنی
[فَہٰذَا اعْتِقَادُ] … ہذا، اسم اشارہ ہے اور اشارہ کسی موجود چیز کی طرف ہونا چاہیے، جب میں (ہذا) کہوں گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں کسی ظاہر ومحسوس چیز کی طرف اشارہ کر رہا ہوں ۔ مگر مؤلف نے تو کتاب لکھنے اور اسے عالم محسوسات میں پیش کرنے سے پہلے اس کا خطبہ لکھا تھا۔ اس کی توجیہ کیا ہے؟
میں اس کے جواب میں یہ کہنا چاہوں گا کہ علماء فرماتے ہیں کہ اگر تو مؤلف رحمہ اللہ نے پہلے کتاب لکھی اور پھر اس کا مقدمہ اور خطبہ رقم کیا، تو اس صورت میں کوئی اشکال پیدا نہیں ہوتا، اس لیے کہ مشار الیہ موجود بھی ہے اور محسوس بھی، اور اگر انہوں نے کتاب پہلے نہیں لکھی تھی تو اس صورت میں وہ اپنے ذہن میں موجود ان معانی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جنہیں وہ اس کتاب میں لکھنے والے تھے۔ میرے نزدیک اس کی ایک تفسیری وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ مولف نے یہ بات مخاطب کے حال کے اعتبار سے کہی، مخاطب کو اس کے ساتھ اس وقت خطاب کیا گیا جب کتاب عالم مشہود میں قدم رکھ چکی تھی، گویا کہ مؤلف کہہ رہے تھے: جو کتاب اس وقت تمہارے ہاتھوں میں ہے وہ اس قسم کی ہے۔
اعْتِقَادُعقد سے افتعال کا وزن ہے جو کہ شد و ربط سے عبارت ہے۔ یہ بات تو تصریف لغوی کے حوالے سے تھی۔ جہاں تک اس کے اصطلاحی مفہوم کا تعلق ہے تو اعتقاد ذہن جازم کے حکم سے عبارت ہے۔ کہا جاتا ہے۔ اعتقدت کذا، یعنی میں نے اپنے دل میں اس کا قطعی فیصلہ کر لیا۔ پھر اگر یہ اعتقاد واقع کے مطابق ہوگا تو صحیح ہوگا اور اگر اس کے خلاف ہوگا تو فاسد ہوگا۔ ہمارا یہ اعتقاد رکھنا صحیح ہے کہ اکیلا اللہ ہی الٰہ ہے، جبکہ نصاریٰ کا یہ عقیدہ فاسد و باطل ہے کہ اللہ تینوں میں سے تیسرا ہے، اس لیے کہ یہ خلاف واقع ہے۔ لفظ اعتقاد کے اصطلاحی مفہوم کا اس کے لغوی مفہوم کے ساتھ ارتباط ظاہر و واضح ہے، اس لیے کہ جس شخص نے اپنے دل میں کسی چیز کو راسخ کر لیا ہو وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے اس پر اس مضبوطی سے گرہ لگا دی ہو کہ وہ اس سے کہیں اور التفات نہ کرے۔
فرقہ ناجیہ کی تعریف
[الْفِرْقَۃِ] …فاء کے کسرہ کے ساتھ، بمعنی گروہ۔ فرمان ایزدی ہے: ﴿فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ﴾ (التوبۃ: ۱۲۲) ’’پس یہ کیوں نہ ہوا کہ ہر گروہ میں سے ایک حصہ نکل کھڑا ہوا کرے۔‘‘ رہا فرقۃ، فاء کی پیش کے ساتھ، تو یہ افتراق سے ماخوذ ہے، بمعنی جدائی۔
|