ہے۔ اسی طرح نیند خالق کے لیے نقص ہے جبکہ مخلوق کے لیے کمال۔ فرق صاف ظاہر ہے۔ تکبر خالق کے لیے کمال اور مخلوق کے لیے نقص ہے۔ اس لیے کہ جاہ وجلال اور عظمت و کبریائی کا اتمام بدون تکبر ممکن نہیں ہے تاکہ غلبہ کا مل ہو اور کوئی بھی اس سے تنازع نہ کر سکے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو سرزنش کی ہے جو اس سے عظمت و کبریائی کا تنازع کرنا چاہے۔ فرمایا: ’’جو کوئی ان میں سے ایک بھی چیز مجھ سے چھیننا چاہے میں اسے عذاب دوں گا۔‘‘[1]
فالمہم مخلوق کا ہر کمال خالق کا کمال نہیں ہوتا اور نہ ہی مخلوق کا ہر نقص خالق کا نقص ہوا کرتا ہے۔ کمال اور نقص دونوں اعتباری ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے رب کے اوصاف بیان کرنا
[وَ بِمَا وَصَفَہُ بِہِ رَسُوْلُہُ] …رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اپنے رب کا وصف بیان کرنا تین اقسام میں منقسم ہے۔ وہ قول سے ہوگا، یا فعل سے یا پھر اقرار سے۔
۱۔ وصف بالقول: اس کی مثالیں بکثرت پائی جاتی ہیں ، مثلاً: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
((ربنا اللّٰہ الذی فی السماء، تقدس اسمک، امرک فی السماء والارض…))
’’ہمارا رب وہ ہے جو آسمان میں ہے، تیرا نام مقدس ہے۔ تیرا حکم زمین میں بھی ہے اور آسمان میں بھی۔‘‘
اسی طرح آپ نے قسم اٹھاتے وقت فرمایا:
((لا ومقلب القلوب)) [2] ’’نہیں ، اے دلوں کو پھیرنے والے۔‘‘
۲۔ وصف بالفعل: اس کی مقدار وصف بالقول سے کم ہے۔ مثلاً: آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو اس بات پر گواہ بنایا کہ میری امت اس بات کا اقرار کر رہی ہے کہ میں نے ان تک تیرا دین پہنچا دیا ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں آپ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’کیا میں نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا؟‘‘ لوگوں نے کہا: ہاں ۔ آپ نے یہ بات تین دفعہ دہرائی، اور پھر فرمایا: ’’یا اللہ! گواہ رہنا۔‘‘ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھاتے اور اسے لوگوں کی طرف موڑتے۔[3] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمان کی طرف انگلی اٹھانا فعلاً اللہ تعالیٰ کا علو کے ساتھ وصف بیان کرنا ہے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن لوگوں کو خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اس دوران ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! مال مویشی ہلاک ہوگئے… آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے۔[4] یہ بھی عن طریق الفعل اللہ تعالیٰ کو علو کے ساتھ موصوف قرار دینا ہے۔
ان کے علاوہ بھی کئی ایسی احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فعلاً اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا اظہار فرمایا۔
|