Maktaba Wahhabi

468 - 552
پہلے گزر چکی ہے۔ ثانیاً: تمہارا یہ قول بھی صحیح نہیں ہے کہ اقرار بالقلب میں کمی وبیشی نہیں ہوتی، بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوتا ہے اور نقصان بھی۔ کسی شخص کے لیے بھی یہ کہنا ممکن نہیں کہ میرا ایمان ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ایمان جیسا ہے۔ ہم یہ بھی کہیں گے کہ اقرار بالقلب کمی وبیشی کو قبول کرتا ہے۔ خبر واحد پر دل کا اقرار دو آدمیوں کی خبر پر اقرار جیسا نہیں ہوتا، سنی سنائی بات پر دل کا اقرار اس بات پر دل کے اقرار جیسا نہیں ہوتا جس کا انسان خود مشاہدہ کرے۔ کیا تم نے حضرت ابراہیم کا یہ ارشاد نہیں سنا؟ ﴿رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی قَالَ اَوَ لَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلٰی وَ لٰکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ﴾ (البقرۃ:۲۶۰) ’’میرے پروردگار! مجھے دکھا کہ تو مردوں کو زندہ کیسے کرے گا؟ اللہ نے فرمایا: کیا تجھے یقین نہیں ہے؟ انہوں نے کہا، کیوں نہیں ۔ لیکن یہ اس لیے ہے کہ میرا دل مزید مطمئن ہوجائے۔‘‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دل میں موجود ایمان زیادت ونقص کو قبول کرلیتا ہے۔ اس لیے علمائے کرام یقین کو تین درجات میں تقسیم کرتے ہیں : علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿کَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِ o لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَ o ثُمَّ لَتَرَوُنَّہَا عَیْنَ الْیَقِیْنِo ﴾ (التکاثر: ۵۔۷) ’’یوں نہیں اگر تم یقینی طور پر جان لو۔ تو پھر یقینا تم جہنم دیکھ لو گے، پھر تم اسے یقین کی آنکھ سے دیکھ لو گے۔‘‘ اور ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَاِِنَّہٗ لَحَقُّ الْیَقِیْنِ﴾ (الحاقۃ:۵۱) ’’اور یقینا وہ قابل قبول حق ہے۔‘‘ دوسرا گروہ وعیدیہ کا ہے، اور وہ ہیں خوارج اور معتزلہ۔ انہیں وعیدیہ کے نام سے موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ وعدہ کے احکام سے صرف نظر کرتے ہوئے وعید کے احکام کو اختیار کرتے ہیں ۔ یعنی وعید کی نصوص کو وعدے کی نصوص پر غالب کرتے ہوئے گناہ کبیرہ کے فاعل کو ایمان سے خارج کردیتے ہیں ۔ پھر خوارج کا تو یہ کہنا ہے کہ وہ دائرۂ ایمان سے نکل کر دائرۂ کفر میں داخل ہوگیا، جبکہ معتزلہ کہتے ہیں کہ وہ ایمان سے خارج ہوگیا مگر کفر میں داخل نہیں ہوا۔ بلکہ وہ دونوں منزلوں کے درمیان والی منزل میں ہے۔ اہل قبلہ گناہ گار ہونے کے باو جود مسلمان ہیں ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((وَہُمْ مَعَ ذٰلِکَ لَا یُکَفِّرُوْنَ اَہْلَ الْقِبْلَۃِ بِمُطْلَقِ الْمَعَاصِیْ وَالْکَبَائِرِ کَمَا یَفْعَلُہُ الْخَوَارِجِ بل الاخوۃ الایمَانیۃ ثابتۃ مع المعاصي۔)) ’’مگر وہ اس کے باوجود اہل قبلہ کو خوارج کی طرح مطلق معاصی اور کبائر کی وجہ سے کافر قرار نہیں دیتے، بلکہ معاصی کے باوجود بھی ان کی ایمانی اخوت ثابت رہتی ہے۔‘‘
Flag Counter