Maktaba Wahhabi

469 - 552
شرح:…[وَہُمْ مَعَ ذٰلِکَ ] …یعنی ان کے اس قول کے باوجود کہ ایمان قول وعمل کا نام ہے۔ [لَا یُکَفِّرُوْنَ اَہْلَ الْقِبْلَۃِ بِمُطْلَقِ الْمَعَاصِیْ وَالْکَبَائِرِ] …اہل قبلہ گناہ گار ہونے کے باوجود مسلمان ہیں ، اس لیے کہ وہ ایک ہی قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے ہیں ، اور وہ قبلہ ہے: کعبہ مشرفہ۔ اہل سنت کے نزدیک مطلق معاصی اور کبائر کی وجہ سے کسی مسلمان کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مؤلف رحمہ اللہ کا قول: ’’بمطلق المعاصی‘‘ قابل غور ہے۔ انہوں نے ’’بالمعاصی والکبائر‘‘ نہیں فرمایا، اس لیے کہ بعض معاصی کفر ہوا کرتے ہیں ۔ جبکہ مطلق معصیت کفر نہیں ہوتی۔ الشي المطلق اور مطلق شي میں فرق یہ ہے کہ اوّل الذکر سے مراد کمال ہوتا ہے، جبکہ ثانی الذکر سے مراد اصل چیز ہوا کرتی ہے۔ کبیرہ گناہ کے فاعل کے پاس مطلق ایمان تو موجود ہوتا ہے، جبکہ اس کا کمال مفقود ہوتا ہے۔ اس بنا پر کلام مؤلف بڑا دقیق ہے۔ [کَمَا یَفْعَلُہُ الْخَوَارِجِ ] … جن کا قول ہے کہ کبیرہ گناہ کا فاعل کافر ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے اس عقیدہ کی وجہ سے ہی مسلمانوں کے خلاف خروج کیا، اور ان کے خونوں اور مالوں کو مباح قرار دیا۔ [بل الاخوۃ الایمَانیۃ ثابتۃ مع المعاصي۔] … یعنی ’’مومنوں کے درمیان اخوت معصیت کے باوجود بھی ثابت رہتی ہے۔‘‘ زانی شخص پاکدامن کا بھائی ہے، قاتل مقتول کا بھائی ہے، اور چور اس کا بھائی ہے جس کی اس نے چوری کی۔ ٭ پھر مؤلف اس کا استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ((کَمَا قَالَ سُبْحَانَہُ فِیْ آیَۃِ الْقِصَاصِ:﴿فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْئٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ (البقرۃ:۱۷۸)…)) جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے آیت قصاص میں فرمایا: ’’پھر جس شخص کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معاف کردیا جائے تو اسے معروف طریقہ کی اتباع کرنا ہے۔‘‘ شرح:…آیت قصاص یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْئٌ ……﴾ (البقرۃ:۱۷۸) ’’اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کے باب میں قصاص فرض کردیا گیا ہے۔ آزاد کے بدلہ میں آزاد اور غلام کے بدلہ میں غلام، اور عورت کے بدلہ میں عورت، ہاں جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی حاصل ہوجائے تو اسے معروف طریقہ کی اتباع کرنا ہے۔‘‘ (اخیہ) سے مراد مقتول ہے۔ اس آیت کریمہ میں وجہ دلالت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مقتول کو قاتل کے بھائی سے موسوم کیا ہے، حالانکہ مومن کو قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے، اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر نہیں ہوتا۔
Flag Counter