Maktaba Wahhabi

77 - 552
حدیث ان اللّٰہ خلق آدم علی صورتہ پر بحث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((ان اللّٰہ خلق آدم علی صورتہ)) [1] کہ ’’اللہ تعالیٰ نے آدم کو اس کی صورت پر پیدا فرمایا۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ ایک صورت دوسری صورت کے ساتھ مماثلت رکھتی ہے۔ اگر آپ کسی مکتوب کی فوٹو کاپی کریں تو کہا جاتا ہے کہ یہ اس کی تصویر ہے، ایک تصویر دوسری تصویر کے عین مطابق ہوتی ہے اور ان کے حروف اور کلمات میں کوئی فرق نہیں ہوتا اور ’’اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔‘‘ رسول علیہ الصلاۃ والسلام کا ارشاد ہے، جو سب سے بڑھ کر علم وصدق کے حامل، امت کے خیر خواہ اور سب لوگوں سے زیادہ فصیح المقال ہیں ۔ جواب مجمل:… اس کا اجمالی جواب تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾ (الشوریٰ:۱۱) ’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘ کے خلاف نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو ان میں تطبیق دینے کی توفیق دے تو ایسا ضرور کریں اور اگر یہ میسر نہ آئے تو پھر کہہ دیں ﴿اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا﴾ (اٰل عمران: ۷) ’’ہم اس پر ایمان لائے، سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے۔‘‘ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ رب العزت کا کوئی مثیل نہیں ہے، ہم اس عقیدے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں ۔ یہ اللہ کا کلام ہے اور یہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا، ان میں سے ہر کلام حق ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ ان میں سے ایک دوسرے کی تکذیب کرے، کیونکہ یہ خبر ہے کوئی حکم نہیں کہ اس میں نسخ کا امکان ہو۔ میں کہتا ہوں ادھر مماثلت کی نفی ہو رہی ہے اور ادھر اثبات صورت۔ آپ کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ کی مثل کوئی چیز نہیں ہے اور یہ کہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا۔ ہمارا کلام اللہ پر بھی ایمان ہے اور کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی۔ یہ دونوں برحق ہیں ، ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور ہم ان کے سامنے خاموش ہیں ۔ جواب مفصل: جنہوں نے یہ بات فرمائی کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا۔‘‘ وہ اس اللہ کے رسول ہیں جس نے فرمایا: ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾ (الشوری: ۱۱) ’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘ اور یہ ممکن ہی نہیں کہ رسول اپنے بھیجنے والے کی تکذیب کرے، جس پیغمبر نے یہ فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا۔‘‘ اسی پیغمبر کا ارشاد ہے: ’’جنت میں داخل ہونے والا پہلا گروہ چاند کی صورت میں ہوگا۔‘‘[2]کیا یہ سمجھا جائے کہ یہ گروہ ہر اعتبار سے چاند کی صورت میں ہوگا، یا وہ ہوگا تو انسانی شکل وصورت میں ہی لیکن حسن وجمال، چہرے کی گولائی اور اس کی چمک و دمک میں چاند جیسا ہوگا؟ اگر آپ پہلی بات کے قائل ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کی نہ آنکھیں ہوں گی، نہ ناک اور نہ ہی منہ۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب وہ جنت میں داخل ہوں گے۔ تو پتھر ہوں گے اور اگر آپ دوسری بات کو تسلیم کرتے ہوں
Flag Counter