چین و قرار نصیب نہ ہوگے۔
رابعاً: تاکہ اس کے گھر والے شرمسار نہ ہوں ، اسے اگر لوگ سن لیں تو وہ انہیں طعنہ دیتے ہوئے کہا کریں : یہ تمہارا باپ ہے، یہ تمہارا بھائی ہے، یہ تیرا بیٹا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
خامساً: اسے سن کر ہم خود بھی ہلاک ہو جائیں ، اس لیے کہ وہ چیخ کوئی معمولی قسم کی نہیں ہے، اگر لوگ اسے سن لیں تو ان کے دل باہر کو آئیں ، جس سے وہ مر جائیں یا پھر بیہوش ہو جائیں ۔
سادساً: اگر ان لوگوں کی چیخیں لوگ سن لیں تو عذاب قبر پر ایمان لانا، ایمان بالغیب کے زمرے سے نکل کر ایمان بالشہادہ کے زمرے میں آجائے گا اور اس طرح امتحان کی مصلحت ختم ہو جائے گی، اور لوگ جس چیز کا مشاہدہ کرلیں گے اس پر یقینا ایمان لے آئیں گے، لیکن اگر وہ ان سے غائب رہے گی اور انہیں اس کا علم صرف خبر کی وساطت سے ہوگا تو اس کا شمار ایمان بالغیب میں ہوگا۔
تنبیہ: …مؤلف رحمہ اللہ کا قول: ((فیصیح صحیحۃً یسمعہا کل شيء اِلَّا الانسان ولوسمعہا الانسان تصعق۔)) میت کے قول کے بارے میں وارد ہوا ہے، جب لوگ اسے اپنے کندھوں پر اٹھا کر قبرستان کی طرف جارہے ہوتے ہیں ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر وہ نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے آگے لے چلو، اور اگر وہ نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے کہ ہائے خرابی مجھے کہاں لیے جاتے ہو، اس کی آواز کو انسان کے علاوہ ہر شے سنتی ہے، اگر وہ سن لے تو بے ہوش ہو جائے۔‘‘ [1]
جہاں تک قبر میں چیخ مارنے کا تعلق ہے، تو اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ ایسی چیخ مارتا ہے جسے جنوں اور انسانوں کے علاوہ اس کے آس پاس کی ہر شے سنتی ہے۔‘‘[2]
انعامات اور عذاب کا اثبات
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((ثم بعد ہذہ الفتنۃ اما نعیم وإما عذاب۔))
شرح:…’’اس ابتلاء کے بعد نعمتیں ہیں یا پھر عذاب‘‘ ’’ثم‘‘ یہ ’’ثمُّ‘‘ تراخی کے لیے نہیں بلکہ مطلق ترتیب کے لیے ہے، اس لیے کہ سوال و جواب کے بعد انسان کو فوراً عذاب دیا جاتا ہے، یا اسے نعمتوں سے نوازا جاتا ہے، جس طرح کہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ وہ جب یہ کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا، تو اسے لوہے کے ہتھوڑے سے مارا جاتا ہے، جبکہ صحیح جواب دینے والے کے لیے جنت کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے، اور اس کی قبر میں تو سیع کر دی جاتی ہے۔
ان نعمتوں اور عذاب کا تعلق بدن کے ساتھ ہوتا ہے یاروح کے ساتھ؟ یا ان دونوں کے ساتھ؟
|