کیا پہلی قوموں کو بھی قبر میں سوال ہو گا؟
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((فَیُقَالَ لِلرَّجُلِ ، مَنْ رَّبُکَ ، مَا دِیْنُکَ ، مَنْ نَّبِیُّکَ۔))
’’قبر میں آدمی سے سوال ہوگا: تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کون سا ہے اور تیرا نبی کون ہے؟‘‘
یہ سوال وہ دو فرشتے کریں گے جو قبر میں انسان کے پاس آکر اسے بٹھا لیں گے اور پھر اس سے سوال کریں گے، جب وہ اس سے سوال کررہے ہوتے ہیں ، اس وقت وہ واپس لوٹنے والوں کی جوتیوں کی آہٹ بھی سن رہا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ میت کو دفنانے کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر ارشاد فرماتے: ’’اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کا سوال کرو، اس لیے کہ اب اس سے سوالات ہوں گے۔‘‘ [1]
قبر میں سوال کرنے والے فرشتو ں کے نام
بعض آثار میں وارد ہے کہ ان کے نام منکر اور نکیر ہیں ۔ [2]
مگر بعض علماء ان ناموں کا انکار کرتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ جن فرشتوں کے اللہ تعالیٰ نے خود اچھے اوصاف گنوائے ہوں وہ خود انہیں ان ناموں سے کس طرح موسوم کرسکتا ہے، وہ اس بارے میں وارد حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں ۔
جبکہ دوسرے علماء کے نزدیک یہ حدیث حجت ہے، ان کے نزدیک انہیں اس نام سے موسوم کرنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے منکر ونکیر ہیں بلکہ اس کی وجہ ان کا میت کے نزدیک غیر معروف ہونا ہے جن کے بارے میں اس کے پاس پہلے سے کوئی علم نہیں ہوتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے مہمان فرشتوں سے فرمایا تھا:
﴿سَلَامٌ قَوْمٌ مُّنکَرُوْنَ﴾ (الذاریات:۲۵) ’’اجنبی لوگوں کو سلام۔‘‘
یہ اس لیے کہ آپ انہیں پہچانتے نہیں تھے، چونکہ یہ فرشتے میت کے نزدیک غیر معروف ہوتے ہیں لہٰذا انہیں ان دو ناموں سے موسوم کردیا گیا۔
کیا یہ دو فرشتے کوئی نئے فرشتے ہیں جنہیں اصحاب قبور پر متعین کیا جاتا ہے؟ یا یہ وہی دو فرشتے ہیں جو انسان کے اعمال لکھنے پر مامور ہیں ؟
بعض علماء کے نزدیک یہ وہی دو فرشتے ہیں جو انسان کے اعمال لکھنے کے لیے ہمیشہ اس کے ساتھ رہتے ہیں اور پھر وہی قبر میں آکر اس سے یہ تین سوالات کرتے ہیں ۔
|