فصل:
روزِ قیامت اہل ایمان کااللہ تعالیٰ کے دیدار کا بیان اور مقامات دیدار
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((وَقَدْ دَخَلَ اَیْضًا فِیْمَا ذَکَرْنَاہُ مِنَ الْاِیْمَانِ بِہِ وَبِکُتُبِہِ وَبِمَلَائِکَتِہِ وَبِرُسُلِہِ: الْاِیْمَانُ بِاَنَّ الْمُؤْمِنِیْنَ یَرَوْنَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔))
’’اللہ تعالیٰ، اس کی کتابوں ، اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے میں اس بات پر ایمان لانا بھی داخل ہے کہ قیامت کے دن اہل ایمان اپنے رب کی زیارت سے مشرف ہوں گے۔‘‘
شرح:…[الْاِیْمَانُ بِاَنَّ الْمُؤْمِنِیْنَ یَرَوْنَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔] … قیامت کے دن اہل ایمان کے دیدار الٰہی پر ایمان کے اللہ تعالیٰ پر ایمان میں داخل ہونے کی وجہ صاف ظاہر ہے، اس لیے کہ اس کی اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے، جب ہم اس پر ایمان لائیں گے تو یہ اللہ پر ایمان لانے میں داخل ہوگا۔
اس کے کتب سماویہ پر ایمان لانے میں داخل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کتابوں نے ہی اللہ تعالیٰ کی رؤیت کی خبر دی ہے۔ لہٰذا اس کی تصدیق آسمانی کتابوں کی تصدیق کے مترادف ہوگی۔ اس کے ملائکہ پر ایمان لانے میں داخل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وحی انہی کی وساطت سے آتی ہے، اللہ تعالیٰ سے وحی لے کر جبرئیل امین ہی اترتے رہے ہیں ۔ اس طرح گویا کہ رؤیت باری تعالیٰ پر ایمان لانا، فرشتوں پر ایمان لانے کے زمرے میں آتا ہے۔
رب تعالیٰ کا دیدار بنا کسی تکلیف و رکاوٹ کے ہو گا
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((عَیَانًا بِاَبْصَارِہِمْ کَمَا یَرَوْنَ الشَّمْسَ صَحْوًا لَیْسَ دُوْنِہَا سَحَابٌ وَکَمَا یَرَوْنَ الْقَمَرَ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ ، لَا یُضَامُوْنَ فِیْ رُؤْیَتِہِ۔))
’’وہ اسے کھلے بندوں اپنی آنکھوں سے اس طرح دیکھیں گے جس طرح سورج کو دیکھتے ہیں جب اس کے سامنے بادل نہ ہو، اور جس طرح وہ چودھویں کی رات چاند کو دیکھتے ہیں جس کے دیکھنے میں انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔‘‘
شرح:…[عَیَانًا بِاَبْصَارِہِمْ ]… (عیاناً) معاینہ کے معنی میں ہے جو کہ آنکھوں کے ساتھ دیکھنے سے عبارت ہے۔
|