۲۔ اگر وہ عالی نہیں ہے تو پھر وہ نیچے ہوگا یا مساوی اور یہ صفت نقص ہے اس لیے کہ اس سے اشیاء کا اس کے اوپر یا اس کی مثل ہونا لازم آتا ہے جبکہ اس کے لیے علو کا ثبوت لازم ہے۔
دلالت فطرت بھی اللہ تعالیٰ کے علو یعنی تمام مخلوقات کے اوپر ہونے کی متقاضی ہے، کوئی بھی انسان جب اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے تو اس کا دل آسمان کی طرف متوجہ ہوتا ہے، وہ نہ دائیں طرف پھرتا ہے اور نہ بائیں طرف اور یہ اس لیے کہ اللہ آسمان پر ہے۔
صفت معیت
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
(( وَہُوَ سُبْحَانَہُ مَعَہُمْ اَیْنَمَا کَانُوْا ؛ یَعْلَمُ مَا ہُمْ عَامِلُوْنَ۔))
’’وہ جہاں بھی ہوں اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہوتا ہے، ان کے اعمال کا علم رکھتا ہے۔‘‘
اس بات پر ایمان کہ اللہ تعالیٰ کی معیت مخلوق کے ساتھ ہے
شرح:…ایمان باللہ کے ضمن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ اس کی اپنی مخلوق کے ساتھ معیت پر ایمان رکھا جائے۔ قبل ازیں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معیت کی تین قسمیں ہیں : معیت عامہ، معیت خاصہ اور خاصۃ الخاصہ۔
معیت عامہ ہر شخص کو شامل ہے، وہ مومن ہو یا کافر، نیک ہو یابد، اس کی مثال یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo﴾ (الحدید: ۴)
’’تم جہاں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔‘‘
معیت خاصہ کی مثال یہ فرمان باری ہے:
﴿اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُوْنَo﴾ (النحل: ۱۲۸)
’’یقینا اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں اور محسنین کے ساتھ ہے۔‘‘
اور خاصہ الخاصہ (معیت اخص) کی مثال موسیٰ وہارون رحمہم اللہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
﴿لَا تَخَافَآ اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَ اَرٰیo﴾ (طٰہٰ: ۴۰)
’’خوف نہیں کھانا، بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں ، سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں ۔‘‘
نیز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد گرامی:
﴿اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾ (التوبۃ: ۴۰) ’’یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘
گزشتہ صفحات میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ یہ معیت حقیقی ہے اور یہ کہ معیت عامہ کا مقتضیٰ علم، سمع، بصر قدرت اور حکومت وغیرہا ہے، جبکہ معیت خاصہ کے مقتضیات میں سے نصرت وتائید ہے۔
|