[ظاہرًا وَباطِنًا] … ظہور و بطون امر نسبی ہے۔
لوگوں کے لیے ظاہر ی امور میں ظاہر، اور ان امور میں جو وہ اپنے جی میں چھپاتے ہیں باطن۔ اعمال ظاہرہ میں ظاہر اور اعمال قلوب میں باطن۔
مثلاً: تو کل، خوف، رجاء، انابت، محبت اور ان جیسے دیگر امور کا شمار اعمال قلوب میں ہوتا ہے، جن کی ادائیگی وہ مطلوب انداز میں کرتے ہیں ، ارکان نماز، قیام، قعود، رکوع، سجود، اور صدقہ، حج اور صیام اعمال جو ارح میں سے ہیں ، یہ اور ظاہری اعمال ہیں ۔
آثارِ رسول کی اقسام
آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ آثاررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تین یا ان سے زیادہ قسمیں ہیں ۔
اولاً: وہ امور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی سبیل التعبد سر انجام دیئے۔ ایسے امور کی اتباع کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ﴾ (الاحزاب:۲۱)
’’یقینا تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘
ہر وہ کام جس میں یہ ظاہر نہ ہو کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے یہ کام عادت کے طور پر کیا، یا جبلت اور فطرت کے تقاضوں کے تحت کیا یا اتفاقاً ایسا ہو گیا، تو وہ علی سبیل التعبد ہوا، اور ہم اس کی ادائیگی کے لیے بھی مامور ہیں ۔
ثانیاً: وہ کام جو آپ نے اتفاقاً کیا: اس کی اتباع ہمارے لیے مشروع نہیں ہے، اس لیے کہ وہ غیر مقصود ہے، جس طرح کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے ہمیں ذی الحجہ کے چوتھے روز مکہ مکرمہ آنا چاہیے، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس تاریخ کو مکہ مکرمہ تشریف لائے تھے۔[1] مگر ہم کہیں گے کہ یہ کام غیر مشروع ہے، اس لیے کہ اس روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اتفاقاًہوئی تھی۔
اسی طرح اگر کوئی شخص یہ کہے کہ عرفات سے واپسی کے موقعہ پر جب ہم اس گھاٹی میں پہنچیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری سے اتر کر پیشاب کیا، تو ہمیں اس جگہ اتر کر پیشاب کرنا اور پھر وضو کرنا چاہیے، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی کیا تھا۔ تو ہم کہیں گے کہ یہ امر غیر مشروع ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل محض اتفاق تھا۔
اسی طرح وہ تمام افعال جو آپ سے اتفاقاً واقع ہوئے ہمارے لیے ان کی اتباع کرنا غیر مشروع ہے۔ اس لیے کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے وہ کام عبادت کے ارادے سے نہیں کیے تھے۔
ثالثاً: وہ کام جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب عادت کیے کیا ہمارے لیے ان کی اتباع کرنا مشروع ہے؟
جواب: جی ہاں : ہمیں ان کی اتباع کرنی چاہیے، لیکن جنس کے اعتبار سے نہ کہ نوع کے اعتبار سے۔
بجز اس صورت کے کہ کوئی شرعی مانع اس سے روک دے۔
|