ہمارے اس زمانے میں صلہ رحمی کا رجحان کم ہوگیا ہے، لوگ اپنے اپنے کام کاج اور ضروریات میں اس قدر مصروف ہوگئے ہیں کہ کسی کو کسی کی خبر نہیں ، مکمل صلہ رحمی یہ ہے کہ آپ رشتہ داروں کے حالات سے آگاہ ہوں ، ان کی اولاد کے امور سے واقف اور ان کی مشکلات سے باخبر ہوں ، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ سب کچھ مفقود ہے، جس طرح کہ مکمل صلہ رحمی بھی اکثر لوگوں میں مفقود ہے۔
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((وحسن الجوار۔))’’اور وہ اچھی ہمسائیگی کا بھی حکم دیتے ہیں ۔‘‘
شرح:…یعنی اہل سنت ہمسائیوں کے ساتھ اچھی ہمسائیگی کا حکم دیتے ہیں ، گھر کے قریب رہنے والے ہمسائے ہوتے ہیں ، ان میں سے جو جس قدر قریب ہوگا وہ احسان واکرام کا زیادہ حقدار ہوگا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ﴾ (النساء: ۳۶)
’’اور والدین کے ساتھ احسان کرو، اور قرابت داروں کے ساتھ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ، قرابت دار پڑوسیوں کے ساتھ اور اجنبی پڑوسیوں کے ساتھ۔‘‘
پڑوسیوں کے حقوق
اللہ تعالیٰ نے قرابت دار پڑوسیوں کے ساتھ بھی اور دور کے پڑوسیوں کے ساتھ بھی احسان کرنے کا حکم دیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کی عزت کیا کرے۔‘‘[1]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید ارشاد فرمایا: ’’مجھے جبرئیل امین علیہ السلام پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ وہ اسے وارث قرار دے دیں گے۔‘‘[2]
آپ کا فرمان ہے: ’’اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہو سکتا، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہو سکتا، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہو سکتا۔‘‘ کہا گیا: کون اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کے ہمسائے اس کی بدسلوکیوں سے محفوظ نہ ہوں ۔‘‘[3]
ان کے علاوہ بھی متعدد ایسی نصوص وارد ہیں جو ہمسائے کا خیال رکھنے، اس کے ساتھ احسان کرنے اور اس کی عزت کرنے پر دلالت کرتی ہیں ۔
پڑوسی اگر قرابت دار اور مسلمان ہو تو اس کے تین حقوق ہوتے ہیں ، حق اسلام، حق قرابت اور حق ہمسائیگی۔ اگر وہ
|