Maktaba Wahhabi

251 - 552
اہل تعطیل کے نزدیک الاستواء کی تفسیر جبکہ اہل تعطیل کے نزدیک استواء سے مراد استیلاء (غلبہ) ہے۔ انہوں نے اس تحریف کے لیے دلیل موجب اور دلیل سالب سے استدلال کیا ہے۔ دلیل موجب کے طورپر وہ شاعر کا یہ قول پیش کرتے ہیں : قَدِ اسْتَوَی بِشْرٌ عَلَی الْعِرَاقِ مِنْ غَیْرِ سَیْفِ أَوْ دَمٍ مِہْرَاقِ ’’بشر بن مروان تلوار استعمال کیے بغیر اور خون بہائے بغیر عراق پر غالب آگیا۔‘‘ اہل تعطیل کے دلائل وہ کہتے ہیں کہ اس جگہ استوی (استولیٰ) کے معنی میں ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس جگہ استویٰ علی العراق کا غلب علی العراق کے معنی میں ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ رہی دلیل سلبی، تو ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم تمہارے معنی کی رو سے یہ ثابت کریں کہ اللہ عرش پر مستوی ہے تو اس سے اس کا عرش کا محتاج ہونا لازم آئے گا اور یہ مستحیل ہے اور لازم کا استحالہ ملزوم کے استحالہ پر دلالت کرتا ہے۔ پھر اس سے اس کا مجسم ہونا بھی لازم آئے گا، اس لیے کہ کسی چیز کا کسی دوسری چیز پر استواء یعنی علو یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ جسم ہے۔ پھر اس سے اس کا محدود ہونا بھی لازم آئے گا، اس لیے کہ جو کسی چیز پر مستوی ہوتا ہے وہ محدود ہوتا ہے، جب آپ اونٹ پر مستوی ہوں گے تو آپ ایک معین علاقہ میں محدود ہوں گے اور محدود چیز پر ہوں گے۔ معطلہ کے دلائل کا ردّ مگر معطلہ کے اس موقف کی تردید کئی وجوہ سے ممکن ہے۔ اولاً: تمہاری یہ تفسیر سلف کی اس تفسیر کے مخالف ہے جس پر ان کا اجماع ہو چکا ہے اور اس اجماع کی دلیل یہ ہے کہ ان سے ایسی کوئی بات منقول نہیں ہے کہ انہوں نے ظاہر کی مخالفت کرتے ہوئے کوئی دوسرا موقف اختیار کیا ہو، ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ استوی (استومیٰ) کے معنی میں ہے۔ ثانیاً: تمہاری یہ تفسیر ظاہر لفظ کے مخالف ہے اس لیے کہ استواء کا مادہ جب (علیٰ) کے ساتھ متعدی ہوتا ہے تو علو اور استقرار کے معنی میں ہوتا ہے، وہ قرآن اور کلام عرب میں اس طرح اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ثالثاً: اس پر کئی لوازم باطلہ لازم آتے ہیں : ۱۔ مثلاً: تمہاری اس تفسیر سے یہ لازم آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا تھا، اس وقت وہ عرش پر غالب نہیں تھا، اس لیے کہ اللہ فرماتا ہے: ﴿خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾ (الاعراف:۵۴)
Flag Counter