’’اس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا، پھر عرش پر مستوی ہوا۔‘‘
(ثَمُّ) ترتیب کا فائدہ دیتا ہے، جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ آسمانوں اور زمین کے تخلیقی عمل کی تکمیل سے پہلے عرش غیر اللہ کے پاس تھا۔
۲۔ لوازم باطلہ میں سے یہ بات بھی ہے کہ ہمارا یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اللہ تعالیٰ زمین، درختوں اور پہاڑوں پر مستوی ہے، اس لیے کہ اس کا ان چیزوں پر غلبہ ہے۔
یہ لوازم باطلہ ہیں ، اور لازم کا بطلان ملزوم کے بطلان پر دلالت کرتا ہے۔
جہاں تک شعر سے استدلال کا تعلق ہے تو اس کا جواب یہ ہے۔
۱۔اس شعر کی سند اور اس کے رواۃ کی ثقاہت ثابت کیجئے مگر ان سے یہ کسی بھی صورت ثابت نہیں ہو سکے گا۔[1]
۲۔یہ شاعر کون ہے؟ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس نے یہ شعر عربی زبان میں بگاڑ آنے کے بعد کہا ہو؟ اس لیے کہ عربی زبان میں تبدیلی آنے کے بعد اس سے استدلال کرنا درست بھی نہیں ہے اور وہ دلیل بھی نہیں بن سکتا۔ جب اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع ہوا اور غیر عرب اقوام عربوں میں گھل مل گئیں تو عربی زبان میں بگاڑ پیدا ہوگیا۔ اس شعر میں بھی اس امر کا امکان موجود ہے کہ یہ عربی زبان میں بگاڑ پیدا ہونے کے بعد کا ہو۔
۳۔’’استوی بشر علی العراق‘‘ کی ’’استولیٰ‘‘ کے ساتھ تفسیر کی قرینہ تائید کرتا ہے، اس لیے کہ بشر کا عراق کے اوپر چڑھ کر اس پر اس طرح جم کر بیٹھ جانا جس طرح تخت پر بیٹھا جاتا ہے، امر دشوار ہے لہٰذا ہم اس کی تفسیر (استولیٰ) کے ساتھ کرنے کے لیے مجبور ہیں ۔
ویسے اس کا ایک دوسرا جواب بھی دیا جا سکتا ہے کہ اس شعر میں استواء، علو کے معنی میں ہے، اس لیے کہ علو کی دو قسمیں ہیں :
۱۔ علو حسی، جس طرح کہ چارپائی یا تخت پر ہمارا استواء۔
۲۔ اور علو معنوی، جو کہ غلبہ کے معنی میں ہے۔
اس اعتبار سے ’’عراق پر بشر کا استوا‘‘ قہر وغلبہ کے معنی میں ہوگا۔
رہا تمہارا یہ قول کہ استواء کی علو کے ساتھ تفسیر کرنے سے اللہ تعالیٰ کے لیے جسم لازم آتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ: کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے جو چیز بھی لازم آتی ہو، وہ مبنی برحق ہوتی ہے اور ہمارے لیے اس کا التزام واجب ہوتا ہے، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کلام اللہ اور کلام رسول اللہ کا لازمی تقاضا ہو، اگر اس کا لازم ہونا ثابت ہوتا ہو تو ہوجائے اور ہم اسے ضرور تسلیم کریں گے۔
|