Maktaba Wahhabi

41 - 552
پر گامزن ہوں گے تو۔ ارکانِ ایمان ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((وَہُوَ الْاِیْمَانُ بِاللّٰہِ، وَمَـلَائِکَتِہِ ، وَکُتُبِہِ ، وَرُسُلِہِ ، وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْاِیْمَانُ بِالْقَدَرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ۔)) ’’اور وہ ہے اللہ پر ایمان لانا، اس کے فرشتوں پر ایمان لانا، اس کی کتابوں پر ایمان لانا، اس کے رسولوں پر ایمان لانا، موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر ایمان لانا اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لانا۔‘‘ شرح:… ہمارے لیے عقیدے کی یہ تفصیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام کے ان سوالات کے جواب میں بیان فرمائی کہ اسلام کیا ہے؟ ایمان کیا ہے؟ احسان کیا ہے؟ اور قیامت کب آئے گی؟ آپ نے ایمان کے بارے میں اس کے سوال کے جواب میں فرمایا: ’’ایمان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، قیامت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لائے۔‘‘ [1] [الْاِیْمَانُ بِاللّٰہِ] … ایمان لغوی اعتبار سے: اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ایمان تصدیق سے عبارت ہے، اس حوالے سے صَدّقتُ اور اٰمَنْتُ لغوی اعتبار سے ایک ہی معنی میں ہیں ، مگر ان کا یہ قول درست نہیں ہے، لغۃً ایمان کسی چیز کی تصدیق کرتے ہوئے اس کے اقرار کا نام ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ یہ تو کہتے ہیں : ’’آمنت بکذا، اقرء ت بکذا۔ وصدقت فلانا۔ مگر یہ نہیں کہہ سکتے: امنت فلانا،اس اعتبار سے ایمان مجرد تصدیق سے۔ زائد معنی کو متضمن ہے ،اور وہ ہے ایسا اعتراف واقرار جو اخبار کو قبول کرنے اور احکام کے سامنے سر جھکانے کو مستلزم ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ کے وجود پر ایمان لانا اس وقت تک ایمان نہیں کہلاتا جب تک یہ اخبار کو قبول کرنے اور احکام کی تعمیل کرنے کو مستلزم نہ ہو۔ ایمان باللہ چار امور پر مشتمل ہوتا ہے: ۱۔ وجود باری تعالیٰ پر ایمان لانا۔ ۲۔ اس کی ربوبیت پر ایمان لانا، یعنی اس بات پر ایمان لانا کہ وہ ربوبیت میں یکتا ہے۔ ۳۔ الوہیت میں اس کے منفرد ہونے پر ایمان لانا۔ ۴۔ اس کے اسماء و صفات پر ایمان لانا۔ اس بنا پر وجود باری تعالیٰ پر ایمان نہ رکھنے والا مومن نہیں ہے، جو شخص اللہ کے وجود پر تو ایمان رکھتا ہو، مگر ربوبیت میں اس کے منفرد ہونے پر ایمان نہ رکھتا ہو تو وہ بھی مومن نہیں ہے۔ ان دونوں باتوں پر ایمان رکھنے والا اور الوہیت میں اس کے
Flag Counter