٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((أوابتلی ببلاء فی الدنیا کفر بہ عنہ۔))
’’یا دنیا میں اس کی کوئی ایسی آزمائش کی گئی جو اس کے گناہوں کا کفارہ بن گئی۔‘‘
شرح:…اور یہ اس لیے کہ دنیا میں کسی آزمائش کی وجہ سے بھی اللہ تعالیٰ برائیوں کا خاتمہ فرما دیتا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس بھی مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے، وہ بیماری ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور چیز، اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کی برائیوں کو اس طرح ختم کرتا ہے جس طرح درخت اپنے پتے گرایا کرتا ہے۔‘‘[1] اس بارے میں احادیث بڑی مشہور اور کثرت کے ساتھ وارد ہیں ۔
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((فاذا کان ہذا فی الذنوب المحققۃ، فکیف الامور التی کانوا فیہا۔ مجتہدون: ان أصابوا فلہم أجران واِن أخطؤوا فلہم أجر و احدٌ والخطأ مغفور۔))
’’جب ثابت شدہ گناہوں کے بارے میں یہ صورت حال ہے تو پھر ان امور کے بارے میں کیا کہا جائے گا، جن میں اگر وہ صحیح فیصلہ کریں تو دوہرے اجر کے مستحق ٹھہریں اور اگر غلطی کے مرتکب ہوں تو بھی ایک اجر پائیں ، اور غلطی معاف کر دی جائے۔‘‘
شرح:…مگر اس قسم کے حقدار انتہائی کم ہے۔ اور جس کی ان کے فضائل و محاسن کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔
اس میں توکوئی شک نہیں کہ ان میں سے بعض لوگوں سے سرقہ، شراب نوشی اور زنا جیسے أمور کا ارتکاب ہوا، مگر یہ تمام اشیاء ان کے فضائل و محاسن کے سامنے نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ پھر بعض امور میں تو حدود کا قیام بھی عمل لایا گیا ہے جس سے گناہ یقینی طور پر ساقط ہو جاتا ہے۔
صحابہ کے فضائل و محاسن
٭ پھر مؤلف رحمہ اللہ ان کے فضائل و محاسن میں سے بعض امور کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
((من الایمان باللّٰہ ورسولہ والجہاد فی سبیلہ والہجرۃ والنصرۃ والعلم النافع و العمل الصالح۔))
’’مثلاً ان کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، فی سبیل اللہ جہاد اور ہجرت کرنا۔ دین اسلام کی نصرت و معاونت کرنا، علم نافع اور عمل صالح۔‘‘
|