اگر کوئی یہ کہے کہ ہنسی سے مراد خوشنودی ہے، اس لیے کہ انسان جب کسی چیز سے راضی ہوتا ہے تو وہ خوشی سے ہنسنے لگتا ہے، اور خوشنودی ورضا سے مراد ثواب یا ارادہ ثواب ہے، جیسا کہ اہل تعطیل کا قول ہے۔
اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ تمہارا یہ کہنا محض تحریف ہے، تمہیں یہ کس طرح پتا چلا کہ رضیٰ سے مراد ثواب ہے؟ یہ کہہ کر تم نے دو طرح سے اللہ تعالیٰ کے بارے میں لا علمی پر مبنی بات کی۔
۱۔ تم نے بدون علم نص کو اس کے ظاہر سے پھرا۔
۲۔ تم نے بدون علم ظاہر کے خلاف نص سے اس کے معنی کا اثبات کیا۔
پھر ہم ان سے یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ اگر تمہارے نزدیک اللہ کے لیے ارادہ ثابت ہے، تو اس سے بھی تمہارا وضع کردہ قائدہ ٹوٹ جاتا ہے، اس لیے کہ انسان کے لیے بھی ارادہ ثابت ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ﴾ (اٰل عمران: ۱۵۲)
’’تم میں سے کچھ دنیا کا ارادہ کرتے ہیں اور کچھ آخرت کا۔‘‘
ارادہ انسان کے لیے بھی ثابت ہے، بلکہ دیوار کے لیے بھی ثابت ہے۔
﴿فَوَجَدَا فِیْہَا جِدَارًا یُّرِیْدُ اَنْ یَّنْقَضَّ﴾ (الکہف: ۷۷)
’’انہوں نے اس بستی میں ایک دیوار پائی جو ٹوٹ کر گر جانا چاہتی تھی۔‘‘
اب تم یا تو اللہ تعالیٰ سے بھی ارادہ کی نفی کرو جس طرح تم نے اس کی بعض صفات کی نفی کر دی ہے، یا پھر اس کے لیے وہ کچھ ثابت کرو جس کا اس نے اپنی ذات کے لیے اثبات کیا ہے۔
اس حدیث سے اخذ کردہ سلوکی فوائد
جب ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ اللہ ہنس بھی لیا کرتا ہے تو ہم اس سے ہر خیر کی امید رکھیں گے، ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: کیا ہمارا رب ہنس بھی لیا کرتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں ‘‘ اس پر وہ کہنے لگا: ہنسنے والے رب سے ہم خیر کو معدوم نہیں پائیں گے۔[1]
جب ہمیں اس کا علم ہوگا تو ہمارے لیے ہر خیر میں امید کے دروازے کھل جائیں گے، اس لیے کہ ترش رو اور ہنس مکھ انسان میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہشاش بشاش رہتے اور اکثر تبسم فرمایا کرتے۔
|