جائے گی، اس لیے کہ اس نے ایسا نہ کرنے کا عزم کیا تھا مگر وہ نفس کے فریب میں آکر دوبارہ اس کا مرتکب ہوگیا، لہٰذا وہ اسسے ایک بار پھر توبہ کرے، پھر جب بھی اس سے کوئی گناہ سر زد ہوا اس سے توبہ کرے… اللہ تعالیٰ کا فضل بڑا وسیع ہے۔
٭ تیسری حدیث اثبات ضحک (ہنسنا) کے بارے میں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((یَضْحَکُ اللّٰہُ اِلٰی رَجُلَیْنِ ؛ یَقْتُلُ اَحَدُہُمَا الْآخَرَ ؛ کِلَاہُمَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ۔))[1]
’’اللہ تعالیٰ ان دو آدمیوں کو دیکھ کر ہنستا ہے جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کر دیتا ہے اور وہ دونوں جنت میں داخل ہو جاتے ہیں ۔‘‘
شرح:…بعض نسخوں میں ’’یَدْخُلَانِ‘‘ ہے اور یہ بھی صحیح ہے، اس لیے کہ (کلا) کی خبر میں ۔ وہ اسم ہو یا فعل۔ لفظ اور معنی دونوں کی رعایت رکھنا جائز ہوتا ہے۔
حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس امر کی خبر دے رہے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ دو ایسے آدمیوں کو دیکھ کر ہنستا ہے، جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کر دیتا ہے اور پھر وہ دونوں جنت میں داخل ہو جاتے ہیں ، وہ یوں کہ ان میں سے ایک مسلمان تھا اور دوسرا کافر، کافر نے مسلمان کو قتل کر ڈالا، جس کی وجہ سے مسلمان شہید قرار پایا اور وہ جنت میں داخل ہوگیا، پھر اللہ تعالیٰ نے کافر پر احسان کیا اور وہ بھی مسلمان ہوگیا، پھر اسے شہید کر دیا گیا، یا طبعی موت مر گیا اور پھر وہ بھی جنت میں داخل ہوگیا اس طرح جب قاتل اور مقتول دونوں جنت میں داخل ہوئے تو اللہ تعالیٰ انہیں دیکھ کر ہنس رہا۔
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے لیے ہنسنے کا اثبات کیا گیا ہے، یہ ہنسنا حقیقی ہے مگر یہ مخلوق کے ہنسنے کے مماثل نہیں ہے، ایسی ہنسی ہے جو اس کے جلال وعظمت کے شایان شان ہے، ہمارے لیے اسے مخلوق کی ہنسی کے مماثل قرار دینا ممکن نہیں ہے، ہمارے لیے یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مونہہ ہے یا دانت ہیں یا اس جیسی کوئی اور بات۔ البتہ ہم اس کے لیے اس کے شایان شان ہنسی کا اثبات ضرور کریں گے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہنسی کے اثبات سے اس کا مخلوق کے ساتھ مماثل ہونا لازم آئے گا۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے یہ لازم نہیں آتا، اس لیے کہ جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’یضحک‘‘ فرما کر اس کے لیے ہنسی کا اثبات فرمایا ہے انہیں پر اس آیت کا بھی نزول ہوا تھا:
﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ﴾ (الشوریٰ: ۱۱)
’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔‘‘
دوسری بات یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس جیسے امور میں صرف وحی کی روشنی میں بات فرما سکتے ہیں اس لیے کہ اس کا تعلق غیبی امور سے ہے نہ کہ اجتہادی امور سے۔
|