[حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا۔] … ’’حفاۃً‘‘ ننگے پاؤں ، انہوں نے نہ جوتے پہن رکھے ہوں گے اور نہ موزے ۔
عراۃً بدن سے ننگے۔
غرلًا غرل، أغرل کی جمع ہے۔ غیر مختون آدمی۔ یعنی ان کی پیدائش سے کوئی چیز بھی کم نہ ہوگی، یہاں تک کہ ختنہ کرتے وقت جو حصہ کاٹ دیا جاتا ہے۔ قیامت کے دن وہ بھی واپس آجائے گا۔ اس لیے کہ اللہ نے فرمایا ہے:
﴿کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ﴾ (الانبیاء:۱۰۴)
’’جس طرح ہم نے پہلی مرتبہ پیدا کرنا شروع کیا تھا ہم اسے پھر دہرا دیں گے۔‘‘
پورے کے پورے انسان کا اعادہ کیا جائے گا اور اس کے جسم سے کوئی چیز کم نہیں کی جائے گی۔ اور اس سلسلے میں مردوں اور عورتوں میں کوئی امتیاز روانہ رکھا جائے گا۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں : یا رسول اللہ! پھر تو مرد اور عورتیں ایک دوسرے کی طرف دیکھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’معاملہ اس خیال سے بھی سنگین ہوگا۔‘‘ [1]
دوسری روایت میں ہے۔ ’’معاملہ اس بات سے بہت سنگین ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھیں ۔‘‘ ہر انسان کی اپنی حالت اسے دوسروں سے بے نیاز کر دے گی۔
﴿یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِo وَاُمِّہِ وَاَبِیْہِo وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِo لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِo﴾ (عبس:۳۷۔۳۴)
’’اس دن دور بھاگے گا انسان اپنے بھائی سے، اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے، اپنی بیوی سے اور اپنے بیٹوں سے، اس دن ہر شخص کے لیے ایک حالت ہو گی جو اس کے لیے کافی ہوگی۔‘‘
نہ کوئی آدمی کسی عورت کی طرف دیکھے گا اور نہ کوئی عورت کسی آدمی کی طرف، یہاں تک کہ اس کا باپ یا اس کا بیٹابھی اس خوف کے پیش نظر اس سے دور بھاگے گا کہ کہیں وہ اس سے اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کر دے۔ جب صورت حال یہ ہوگی تو ایسے میں مردوں کا عورتوں کی طرف یا عورتوں کا مردوں کی طرف دیکھنا ممکن نہ ہوگا۔ بعد ازاں انہیں لباس پہنا دیا جائے گا، اور سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کو لباس پہنا یا جائے گا۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔[2]
قیامت کے دن سورج ایک میل کے فاصلہ پر ہو گا
٭ قیامت کے دن تیسرے کام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
(( وَتَدْنُوْ مِنْہُمُ الشَّمْسُ۔)) ’’اور سورج ان کے قریب آجائے گا۔‘‘
|