اللہ تعالیٰ کی توحید ومعرفت فطری اور جبلی چیز ہے۔ جس کی طرف اس ارشاد باری تعالیٰ میں اشارہ کیا گیا ہے:
﴿وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَ اَشْہَدَہُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَہِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ہٰذَا غٰفِلِیْنَo اَوْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اَشْرَکَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَ کُنَّا ذُرِّیَّۃً مِّنْ بَعْدِہِمْ اَفَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَo﴾ (الاعراف: ۱۷۲۔ ۱۷۳)
’’اور جب نکالی تیرے رب نے اولاد آدم سے ان کی اولاد اور گواہ بنایا ان کو ان کی ذاتوں پر کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے بتایا: کیوں نہیں اور یہ اس لیے کہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ یقینا ہم تو اس سے بے خبر تھے یا یہ نہ کہہ سکو کے شرک تو اس سے پہلے ہمارے آباء واجداد نے کیا تھا اور ہم تو ان کے بعد (ان کی) اولاد تھے۔‘‘
یہ آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ وجود باری تعالیٰ اور اس کی ربوبیت کی گواہی دینا انسان کی جبلت میں رکھ دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو ان کی پیٹھ سے نکال کر انہیں اپنی ربوبیت کا گواہ بنایا ہو یا اس نے اپنی ذات کا اقرار ان کی فطرت میں رکھ دیا ہو، ان دونوں صورتوں میں یہ ارشاد ربانی اس بات کی دلیل ہے کہ انسان فطری طور پر اپنے رب کو پہچانتا ہے۔
دلالت شرع:جہاں تک دلالت شرع کا تعلق ہے تو مخلوقات کی ہمہ جہتی اصلاح پر مشتمل انبیاء کرام جو شرائع لے کر آئے وہ طبعی طور اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انہیں بھیجنے والا رب بڑا رحیم وکریم ہے۔ اور خاص طور پر قرآن مجید، فرقان حمید جس نے جن وانس کو اپنی نظیر پیش کرنے سے عاجز کر دیا۔
فرشتوں پر ایمان لانا
[وَمَـلَا ئِکَتِہِ ] …ملائکۃ، ملأک جمع ہے، اس کی اصل مألک ہے، اس لیے کہ یہ الوکۃ سے ماخوذ ہے جو کہ لغوی اعتبار سے رسالت سے عبارت ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿جَاعِلِ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا اُولِیْٓ اَجْنِحَۃٍ مَّثْنٰی﴾ (فاطر: ۱)
’’جو فرشتوں کو قاصد بنانے والا ہے جو دو دو پروں والے ہیں ۔‘‘
ملائکہ (فرشتے) عالم غیب سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے نور سے پیدا فرمایا اور انہیں عجز وانکسار کے ساتھ اپنا اطاعت گزار بنایا اور انہیں الگ الگ ذمہ داریاں تفویض کیں ، جن میں سے کچھ کی تفصیل اس طرح سے ہے:
۱۔ جبرئیل: ان پر وحی کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے، جسے وہ اللہ تعالیٰ سے لے کر اس کے رسولوں تک پہنچاتے رہے ہیں ۔
۲۔ اسرافیل: ان کی ذمہ داری صور پھونکنا ہے، وہ یکے از حاملین عرش بھی ہیں ۔
۳۔ میکائیل: بارش برسانے اور نباتات سے متعلقہ ذمہ داریاں انہیں تفویض کی گئی ہیں ۔
زندگی سے متعلقہ امور ان تینوں کے سپرد کیے گئے ہیں : وحی جبرئیل کے سپرد کی گئی، جس سے قلبی اور روحانی زندگی وابستہ ہے، بارشوں اور نباتات سے متعلقہ امور میکائیل کے ذمہ ہیں ، جن میں زمین کی زندگی ہے، جبکہ اسرافیل کی ذمہ داری صور پھونکنا ہے، جس سے قیامت کے دن جسموں کو نئی زندگی ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد کی افتتاحی دعا میں
|