سے کہا تھا:
﴿عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّیْ فِیْ کِتٰبٍ لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَ لَا یَنْسَیo﴾ (طٰہ:۵۲)
’’اس نے کہا: اس کا علم میرے رب کے پاس ہے کتاب میں ، میرا رب نہ چوکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔‘‘
بخلاف مخلوق کے علم کے، جو کہ جہل سے مسبوق اور نسیان سے ملحوق ہوتا ہے۔
لہٰذا ہمارا اس بات پر ایمان ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے اس سابق علم کے ساتھ اس بات کا علم ہے کہ مخلوق کیا عمل کرنے والی ہے جس کے ساتھ وہ ازل و ابد سے موصوف ہے۔
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((عَلِمَ جَمِیْعَ اَحْوَالِہِمْ مِنَ الطَّاعَاتِ وَالْمَعَاصِیْ وَالْاَرْزَاقِ وَالْآجَالِ۔))
’’اسے ان کے جمیع احوال کا علم ہے، ان کی اطاعت گزاریوں کا بھی، اور معاصی کا بھی، ان کے رزق کا بھی اور اوقات مقررہ کا بھی۔‘‘
شرح:… اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے: ’’ تم میں سے ایک کی خلقت کو اس کی ماں کے پیٹ میں جمع کیا جاتا ہے…‘‘ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنین پر گزرنے والے مختلف حالات کا ذکر فرمایا۔ اسی حدیث میں آپ نے فرمایا: ’’پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھیجتا ہے، اور اسے چار باتوں کا حکم دیتے ہوئے فرمایا جاتا ہے: ’’اس کا عمل، رزق، وقت مقررہ اور اس کا بد نصیب یا خوش نصیب ہونا لکھ دے…‘‘ [1] انسان کو پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کو ان تمام باتوں کا علم ہوتا ہے۔
اسے ہماری اطاعت گزاریوں کا بھی علم ہے اور ہماری معصیتوں کا بھی ۔ ہمارا رزق بھی اس کے علم میں ہے اور ہمارا وقت مقررہ بھی، اس پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے، انسان کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کب اور کہاں مرے گا، کس وجہ سے مرے گا اور کس حال میں مرے گا؟ جبکہ اللہ کو یہ سب کچھ معلوم ہے۔ یہ درجہ اولیٰ کی پہلی چیز ہے۔
لوحِ محفوظ میں مخلوق کی تقدیر
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((ثُمَّ کَتَبَ اللّٰہُ فِیْ اللَّوْحِ الْمَحْفُوْظِ مَقَادِیْرَ الْخَلْقِ۔))
’’پھر اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں مخلوق کی تقدیریں لکھیں ۔‘‘
شرح:…یہ درجہ اولیٰ کی دوسری چیز ہے۔ہم لوح محفوظ کی ماہیت سے آگاہ نہیں ہیں ؛ وہ لکڑی کی ہے یا لو ہے کی، سونے کی ہے یاچاندی کی؟ اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ ہمارا تو اس بات پر ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ
|