﴿عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّیْ فِیْ کِتٰبٍ لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَ لَا یَنْسَیo﴾ (طٰہٰ: ۵۲)
’’ان کا علم کتاب میں میرے رب کے پاس ہے، میرا رب نہ چوکتا ہے اور بھولتا ہے۔‘‘
انہوں نے یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ سے جہل اور نسیان کی نفی فرما دی، لہٰذا اس کی تصدیق کرنا ہم پر واجب ہے۔ اس لیے کہ اس بات کو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر آئے، اس سے قبل ارشاد ہوا:
﴿قَالَ فَمَنْ رَّبُّکُمَا یٰمُوْسٰیo قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْئٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰیo﴾ (طٰہٰ: ۴۹۔۵۰)
’’اس نے کہا: اے موسیٰ! تمہارا رب کون ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شے کو اس کی شکل وصورت دی پھر اسے راہ دکھائی۔‘‘
سوال : ہمیں یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اس کی شکل وصورت دی اور پھر اسے راہ دکھائی؟
جواب : ہمیں اس کا علم موسیٰ علیہ السلام کی کلام سے ہوا۔ لہٰذا ہم اس پر ایمان رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو وہ شکل وصورت دی جو اس کے لائق تھی۔ انسان، اونٹ، گائے اور بھیڑ کی اپنی اپنی شکل وصورت ہے، پھر ہر مخلوق کو اس کی مصالح اور منافع کی راہ دکھائی، چیونٹیاں موسم گرما کے ایام میں اپنی خوراک اپنی بلوں میں جمع کر لیتی ہیں ، مگر دانوں کو اسی حالت میں نہیں بلکہ ان کے سر توڑ کر ذخیرہ کرتی ہیں تاکہ وہ اگ نہ سکیں ، کیونکہ اگنے کی صورت میں یہ خوراک خراب ہو جاتی ہے، پھر جب بارش کے دوران ان دانوں میں نمی پیدا ہو جاتی ہے تو وہ انہیں تعفن سے بچانے کے لیے بلوں سے نکال کر دھوپ میں بکھیر دیتی ہے اور خشک ہونے پر انہیں دوبارہ بلوں کے اندر لے جاتی ہے۔
سابقہ رسول کے احکام میں فرق ہونے میں علماء کا اختلاف
چونکہ انبیائے سابقین کی طرف منسوب چیزوں میں کذب کا امکان ہے، لہٰذا ان کی صحت کا یقین کر لینا ضروری ہوتا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کئی باتیں منسوب کر دی گئی ہیں ۔ مؤلف کا قول: ’’عما جاء بہ المرسلون‘‘ احکام پر بھی مشتمل ہے یا چونکہ گفتگو صفات کے حوالے سے ہو رہی ہے، لہٰذا یہ اخبار کے ساتھ مختص ہے؟
اگر عموم لفظ کی طرف دیکھا جائے تو یہ جملہ اخبار واحکام دونوں کا احاطہ کرتا ہے اور اگر سیاق کلام کو مدنظر رکھا جائے تو قرینہ اس امر کا متقاضی ہے کہ بات عقائد کے حوالے سے ہو رہی ہے جو کہ اخبار کے قبیل سے ہیں ، لیکن ہم یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ اگر شیخ الاسلام کی گفتگو عقائد کے ساتھ خاص ہے تو پھر ایسا ہی ہے اور ہمیں کچھ کہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے، لیکن اگر وہ عام ہے تو پھر احکام پر بھی مشتمل ہے۔
گزشتہ رسولوں کے احکام کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ اگر ہماری شریعت ان کے خلاف نہ ہو تو کیا وہ احکام ہمارے لیے بھی مشروع ہیں یا نہیں ؟[1]
|