Maktaba Wahhabi

33 - 552
آج تک اسلام کی مخالفت پر کمر بستہ کفار کے خون بھی مباح رہے اور ان کے اموال بھی ان کی عورتوں کو بھی قیدی بنایا جاتا رہا اور ان کے بچوں کو بھی[1] اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول علیہ السلام کی عزت افزائی اور تصدیق کی، آپ کی تکذیب نہیں کی اور آپ کو رسوا نہیں ہونے دیا، یہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت ہے اسی لیے اس کا ذکر ﴿لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ﴾ کے بعد کیا گیا۔ شہادت لَا اِلٰہَ الَّا اللّٰہُ کا معنی ٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ((وَاَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ ، لَا شَرِیْکَ لَہُ ، إِقْرَارًا بِہٖ وَ تَوْحِیْدًا۔)) ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اس کا اقرار کرتے ہوئے اور اس کی توحید کا اعتراف کرتے ہوئے۔‘‘ شرح:… [اَشْہَدُ] کا معنی ہے: میں اپنے دل سے اقرار کرتا اور زبان سے اس کا اظہار کرتا ہوں ، اور یہ اس لیے کہ شہادت دل میں موجود کسی چیز کے نطق واظہار کا نام ہے، آپ قاضی یا جج کے سامنے کسی کے خلاف یا کسی کے حق میں گواہی دیتے ہیں تو اس وقت آپ کے دل میں جو کچھ ہوتا ہے اس کی تعبیر زبان سے کرتے ہیں ، جسے شہادت سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اقرار سے ہٹ کر شہادت کا انتخاب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ شہادت کا اصل معنی ’’شہودا لشییٔ‘‘ ہے، یعنی کسی چیز کے پاس موجود ہونا اور اسے دیکھنا، گویا کہ جس کے دل میں جو کچھ موجود ہے اپنی زبان سے اس کی خبر دینے والا اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ [لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ] … یعنی اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی معبود برحق نہیں اس بنا پر ’’لا‘‘ کی خبر محذوف ہوگی اور لفظ ’’اللہ‘‘ اس سے بدل۔ [وَحْدَہُ ، لَا شَرِیْکَ لَہُ ]… ’’وحدہ‘‘ من حیث المعنی اثبات کی توکید ہے اور ’’لا شریک لہ‘‘ نفی کی توکید۔ [إِقْرَارًا بِہٖ وَ تَوْحِیْدًا] … ’’اقرارا‘‘ مصدر ہے، اسے مفعول مطلق بھی کہا جا سکتا ہے، اس لیے کہ یہ ’’اشہد‘‘ کا معنوی مصدر ہے، علماء نحو کہتے ہیں : جب مصدر فعل کے معنی میں ہو اور بدون لفظ ہو تو وہ مصدر معنوی ہوتا ہے یا مفعول مطلق، اور اگر وہ فعل کے معنی اور اس کے حروف کے ساتھ ہو تو وہ مصدر لفظی ہو گا، لہٰذا قمت قیاماتو مصدر لفظی ہے، جبکہ قمت وقوفا مصدر معنوی، اس طرح جلست جلوسًا مصدر لفظی ہوگا اور جلست قعودا معنوی اور ’’توحیدا‘‘، ’’لا الہ الا اللّٰہ‘‘ کے لیے مصدر مؤکد ہے۔
Flag Counter