کے لیے جلا وطن کر دیا جائے گا، اب اس میں تو کوئی شک نہیں کہ یہ سزا اس کے لیے شر ہے مگر چونکہ یہ اس کے اس گناہ کا کفارہ ہے لہٰذا یہ اس کے لیے اس اعتبار سے خیر بھی ہے، اس لیے کہ دنیوی سزا اخروی سزا سے بہت آسان ہے، اس میں ضمیر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس میں دوسروں کے لیے سامان عبرت ہے، وہ اس کا انجام بد دیکھ کر اس گناہ کے ارتکاب سے باز رہیں گے، بلکہ یہ خود بھی آئندہ کے لیے، ایسے گناہوں سے دور رہے گا جن کی پاداش میں اسے اس قسم کی سزا بھگتنا پڑ سکتی ہو۔
جہاں تک امور کونیہ قدریہ کا تعلق ہے تو کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک چیز مقدور ہونے کے اعتبار سے شر ہوتی ہے مگر فی الواقع اس میں خیر ہوتی ہے مثلاً بیماری، جو اگرچہ بیمار کے لیے بری ہے مگر اس میں خیر کا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ اس سے بیمار کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی مانع کی وجہ سے انسان کے گناہ توبہ واستغفار سے بھی معاف نہیں ہوتے۔ مثلاً صدق نیت کا فقدان مگر وہ بیماریوں اور سزاؤں سے معاف ہو جاتے ہیں ۔
اس میں خیر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انسان صحت جیسی اللہ تعالیٰ کی نعمت کی قدر ومنزلت سے اسی وقت آگاہ ہوتا ہے جب وہ بیمار پڑ جاتا ہے، صحت وتندرستی تندرست لوگوں کے سر کا تاج ہے اور اس سے صرف بیمار ہی آشنا ہیں ۔ لہٰذا بیماری اس اعتبار سے بھی خیر ہے کہ اس سے انسان نعمت کی قدر وقیمت سے آگاہ ہوتا ہے۔ بیماری میں خیر کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ اس میں کبھی ایسی چیزیں بھی ہوتی ہیں ۔ جو بدن میں موجود ایسے ضرر رساں جراثیم کو ختم کر دیتی ہیں ۔ جن کا خاتمہ صرف اس بیماری سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے: جسم میں پائے جانے والے ضرر رساں جراثیم کو بعض مخصوص بیماریاں ختم کر دیتی ہیں جبکہ انسان کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔
حاصل کلام
۱۔ جس شر کے ساتھ قدر کو موصوف کیا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے مقدور کی نسبت سے شر ہے، جہاں تک تقدیر باری تعالیٰ کا تعلق ہے تو وہ ساری کی ساری خیر ہے اس کی دلیل نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کا یہ ارشاد ہے: ’’اور شر تیری طرف نہیں ہے۔‘‘
۲۔ مقدور میں پنہاں شر بھی محض شر نہیں ہوا کرتی بلکہ اس پر منتج ہونے والے کئی امور خیر وبرکت کے حامل ہوا کرتے ہیں ، لہٰذا اس کی طرف نسبت کے حوالے سے برائی امر اضافی کی حیثیت رکھتی ہے۔
مؤلف آگے چل کر قضاء وقدر کے بارے میں تفصیلی گفتگو فرمائیں گے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا اپنے بیان کردہ اوصاف اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ پر ایمان لانا
٭ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
((وَمِنَ الْاِیْمَانِ بِاللّٰہِ: اَ لْاِیْمَانُ بِمَا وَصَفَ بِہِ نَفْسَہُ فِی کِتَابِہِ ، وَ بِمَا وَصَفَہُ بِہِ رَسُوْلُہُ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم ۔))
’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے ضمن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ اس چیز پر ایمان لایا جائے جس کے ساتھ اس
|