Maktaba Wahhabi

79 - 552
سوال : اللہ کی وہ صورت کون سی ہے جس پر آدم علیہ السلام کی تخلیق کی گئی؟ جواب : اللہ تعالیٰ کا چہرہ بھی ہے، آنکھیں ، ہاتھ اور پاؤں بھی۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ چیزیں انسان کے ساتھ مماثلت رکھتی ہیں ، کسی قدر مشابہت ضرور ہے مگر یہ مماثلت کے انداز میں ہرگز نہیں ، جس طرح جنت میں داخل ہونے والے پہلے گروہ کی چاند کے ساتھ مشابہت ہوگی مگر یہ مماثلت کے بغیر ہوگی۔ اسی سے اہل سنت کے اس عقیدہ کی تصدیق ہوتی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی تمام صفات مخلوقات کی صفات کے ساتھ مماثلت نہیں رکھتیں ۔ وہ ان پر تحریف وتعطیل کے بغیر اور تکییف و تمثیل کے بغیر ایمان رکھتے ہیں ۔ تعبیر بالتمثیل اولیٰ ہے تعبیر تشبیہ سے سوال : بہت سے مؤلفین اپنی کتابوں میں ’’تشبیہ‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں ، جس سے ان کا مقصود ’’تمثیل‘‘ ہوا کرتا ہے۔ ان میں سے کون سی تعبیر زیادہ موزوں ہے؟ جواب : اسے ’’تمثیل‘‘ کے ساتھ تعبیر کرنا اولیٰ ہے اور اس کی چند وجوہات ہیں : اولاً:… یہ قرآنی تعبیر ہے: ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾ (الشوریٰ:۱۱) ’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘ ﴿فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا﴾ (البقرۃ: ۲۲) ’’اللہ کے شریک مت بناؤ۔‘‘ اور ان جیسی دوسری آیات، قرآنی تعبیر غیر قرآنی تعبیر سے اولیٰ ہے۔ اس لیے کہ قرآن سے بڑھ کر کوئی چیز فصیح نہیں ہے اور نہ ہی اس سے زیادہ کوئی چیز معنی مراد پر دلالت کرنے والی ہے، لہٰذا قرآن سے موافقت اختیار کرنا ہی مبنی بر صواب ہوگا۔ ثانیاً:… بعض لوگوں کے نزدیک تشبیہ اثبات صفات سے عبارت ہے، اس لیے وہ اہل سنت کو مشبہ کا نام دیتے ہیں اگر ہم ’’من غیر تشبیہ‘‘ کی تعبیر اختیار کریں اور کوئی شخص یہ سمجھے کہ اس سے مراد اثبات صفات ہے تو اس سے تشبیہ کا مفہوم بگڑ جائے گا۔ لہٰذا اس سے گریز اختیار کرنا ضروری ہے۔ ثالثاً:… علی الاطلاق تشبیہ کی نفی کرنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ کوئی سی بھی دو چیزوں کے مابین بعض وجوہ کے اعتبار سے کوئی نہ کوئی اشتراک ضرور پایا جاتا ہے۔ ان چیزوں کا تعلق اعیان کے ساتھ ہو یا صفات کے ساتھ، اگر مطلقاً تشبیہ کی نفی کر دی جائے تو اس طرح ہر اس چیز کی نفی ہو جائے گی جس کی وجہ سے خالق ومخلوق کا اشتراک پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر وجود، اصل وجود کے اعتبار سے خالق ومخلوق میں اشتراک ہے جو کہ ایک طرح کاتشابہ ہے مگر وجود وجود میں فرق ہے۔ خالق واجب الوجود ہے جبکہ مخلوق ممکن الوجود، یہی حال سمع کا ہے، خالق بھی سمع سے متصف ہے اور مخلوق بھی، مگر دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ اگر ہم ’’من غیر تشبیہ‘‘ کی تعبیر اختیار کرتے ہوئے مطلق تشبیہ کی نفی کریں گے تو اس سے اشکال پیدا ہوگا۔ لہٰذا اس جگہ ’’تمثیل‘‘ کی تعبیر اختیار کرنا زیادہ بہتر ہے۔
Flag Counter