یہ اس وقت ہوگا۔ واللہ اعلم۔ جب لوگ قرآن سے کلیتاً اعراض کر لیں گے، وہ نہ تو اس کی تلاوت کریں گے، نہ اس پر عمل کریں گے اور نہ ہی قرآنی عقیدہ رکھیں گے۔ ایسے حالات میں قرآن کو اٹھا لیا جائے گا، اس لیے کہ قرآن اس بات سے بالاتر ہے کہ وہ لوگوں میں اس طرح باقی رہے کہ وہ اسے ترک کر دیں ، اس سے منہ موڑ لیں اور اس کی تعظیم و توقیر سے ہاتھ کھینچ لیں یہ ۔واللہ اعلم۔ آخر زمانے میں [1] کعبہ مشرفہ کو گرائے جانے کی نظیر ہے۔ جب سرزمین حبشہ سے ایک سیاہ رنگ اور کوتاہ قد آدمی اپنے لشکر کے ساتھ مسجد حرام میں آئے گا اور کعبہ مشرفہ کا ایک ایک پتھر اکھاڑ کر اسے سمندر میں پھینک دے گا۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے لیے کعبہ مشرفہ کو گرانا ممکن بنا دے گا، جبکہ اس مقصد کے لیے مکہ مکرمہ پر چڑھائی کرنے والے ابرہہ کو اس نے مسجد حرام تک پہنچنے سے قبل ہی تہہ و تیغ کر ڈالا تھا، اس لیے کہ اسے علم تھا کہ وہ عنقریب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمائے گا اور پھر ان کے ہاتھوں مسجد حرام کی ہیبت وعظمت بحال ہوگی۔ مگر آخر زمانے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبی بنا کر مبعوث نہیں کیا جائے گا اور جب لوگ بیت اللہ کی تعظیم و توقیر سے رخ موڑ لیں گے تو اس پر حبشہ کے اس شخص کو مسلط کر دیا جائے گا، یہ رفع قرآن کی نظیر ہے۔ واللہ اعلم
۲۔ اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ قرآن از روئے وصف اللہ کی طرف لوٹ جائے گا، یعنی اللہ کے سوا کسی کو بھی اس کے ساتھ موصوف نہیں کیا جائے گا، متکلم بالقرآن اللہ تعالیٰ ہوگا اور وہی اس کے ساتھ موصوف ہوگا۔
ہمارے لیے ان دونوں معنوں کو صحیح قرار دینے میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
قرآن کریم کے بارے میں یہ اہل السنہ والجماعہ کا عقیدہ ہے۔
معتزلہ کا عقیدہ کہ قرآن کلام اللہ نہیں اور ان کے دلائل
جبکہ معتزلہ کے نزدیک قرآن مجید اللہ کا کلام نہیں بلکہ وہ اللہ کی مخلوق ہے۔
وہ اس کے لیے اس ارشاد باری تعالیٰ سے استدلال کرتے ہیں : پہلی آیت:﴿اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ وَّہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ وَّکِیلٌo﴾ (الزمر: ۶۲) ’’اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہر چیز پر نگران ہے۔‘‘ چونکہ قرآن بھی ایک چیز ہے لہٰذا وہ ﴿کُلِّ شَیْئٍ﴾ کے عموم میں داخل ہے۔ نیز اس لیے بھی کہ وجود صرف دو ہیں ، ایک خالق کا اور دوسرا مخلوق کا، اللہ خالق ہے اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ مخلوق ہے۔
اس کا جواب دو طرح سے ہے:
الاول: قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی ایک صفت ہے اور خالق کی صفات غیر مخلوق ہیں ۔
الثانی : ﴿کُلِّ شَیْئٍ﴾ یہ تعبیر عام ہے، مگر کبھی اس سے مراد خاص ہوا کرتا ہے۔۔ مثلا اللہ تعالیٰ نے ملکہ سباء کے بارے میں فرمایا:﴿وَاُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ﴾ (النمل: ۲۳)’’اسے ہر چیز دی گئی۔‘‘
|