حالانکہ اس کے ملک سے کئی چیزیں خارج تھیں ، مثلاً حضرت سلیمان کی سلطنت۔
سوال : کیا قرآن کے منزل اور مخلوق ہونے میں کوئی فرق ہے؟
جواب : ہاں ، ان دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے، جس کی وجہ سے امام احمد رحمہ اللہ کے دور میں فتنہ خلق قرآن نے سر اٹھایا اور لوگوں کو بڑی آزمائش سے گزرنا پڑا۔
اگر ہم قرآن کو منزل من اللہ کہتے ہیں ، تو اس کی صراحت خود قرآن میں اس طرح کی گئی ہے:
﴿تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ﴾ (الفرقان: ۱)
’’بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان کو نازل فرمایا۔‘‘
اور اگر ہم اسے مخلوق کہتے ہیں تو اس سے مندرجہ ذیل امور لازم آئیں گے۔
اولاً: اس سے قرآن کی تکذیب لازم آئے گی، اس لیے کہ اللہ فرماتا ہے: ﴿وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِِلَیْکَ رُوْحًا مِنْ اَمْرِنَا﴾ (الشوری: ۵۲) ’’اسی طرح ہم نے آپ کی طرف قرآن یعنی اپنا امر بھیجا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی قرار دیا ہے اگر قرآن مخلوق ہوتا تو اسے وحی کہا جانا درست نہ ہوتا، جب وہ وحی ہے تو اس سے اس کا غیر مخلوق ہونا لازم آتا ہے۔ اس لیے کہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ہی تکلم فرمایا ہے۔
ثانیاً: اگر ہم اسے مخلوق کہیں گے تو اس سے امر ونہی اور خبر واستخبار کے مدلول کا ابطال لازم آئے گا، اس لیے کہ اگر یہ صیغے مخلوق ہوتے تو صرف ایسی شکلیں قرار پاتے جنہیں اس صورت میں تخلیق کیا گیا، جس طرح کہ سورج کو اس کی صورت پر، چاند کو اس کی صورت پر اور ستاروں کو ان کی صورتوں پر پیدا کیا گیا ہے، یوں نہ کوئی امر رہتا اور نہ نہی، نہ خبر اور نہ ہی استخبار۔ مثلاً کلمہ (قل) (لا تقل) (قال فلان) اور (ہل قال فلان) یہ سب کے سب اس صورت پر نقوش ہوتے اور امر ونہی، اور خبر واستخبار پر ان کی دلالت باطل ہو جاتی، یہ محض نقوش وصور بن کر رہ جاتے اور ان کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔
اسی لیے ابن قیم رحمہ اللہ ’’تونیہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’خلق قرآن کے اس قول سے امر ونہی کا ابطال لازم آتا ہے، اس طرح امر یوں ہوتا گویا کہ اسے اس صورت پر پیدا کیا گیا ہے علاوہ اس کے کہ اس کا مدلول معتبر ہو، اور نہی کو اس صورت پر پیدا کیا گیا ہے علاوہ اس کے کہ اس کا مدلول ہو، اور یہی حال خبر واستخبار کا ہوتا۔‘‘
ثالثاً: اگر ہم یہ کہیں کہ قرآن مخلوق ہے اور اللہ نے اسے اضافت خلق کے طور پر اپنی طرف مضاف کیا ہے تو انسان یا غیر انسان کے ہر کلام پر، کلام اللہ کا اطلاق درست ہوتا، اس لیے کہ مخلوق کا کلام بھی مخلوق ہوتی ہے۔ ان تین وجوہات کی بناء پر قرآن کے مخلوق ہونے کا قول باطل ہو جاتا ہے۔
رَابعاً:جب تم کلام کے مخلوق ہونے کو جائز بناؤ گے تو اس سے تم پر اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کو مخلوق قرار دینا لازم آئے گا، اس لیے کہ ان میں کوئی فرق نہیں ہے لہٰذا تمہیں کہنا ہوگا کہ اس کی سمع بھی مخلوق ہے اور اس کی بصر بھی…
اگر تم یہ کہو کہ سمع سامع کے ساتھ قائم ایک معنی ہے۔ جسے نہ اس سے سنا جا سکتا ہے اور نہ دیکھا جا سکتا ہے بخلاف کلام
|