Maktaba Wahhabi

384 - 552
اہل سنت کے نزدیک معروف یہ ہے کہ ان کا اصل تعلق روح کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ بدن اس کے تابع ہوتا ہے۔ جس طرح کہ دنیا میں عذاب بدن کو ہوتا ہے اور روح اس کے تابع ہوتی ہے، اور جس طرح کہ دنیا میں شرعی احکام ظاہر پر نافذ ہوتے ہیں اور آخرت میں اس کے برعکس باطن پر۔ قبر میں عذاب یا نعمتوں کا تعلق روح کے ساتھ ہوتا ہے مگر جسم اس سے متاثر ہوتا ہے، اس کا مستقلاًجسم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا، کبھی عذاب جسم کو ہوتا ہے اور روح اس کے تابع ہوا کرتی ہے، مگر اس کاوقوع انتہائی نادر ہوتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ عذاب روح کو ہوتا ہے اور بدن اس کے تابع ہوتا ہے، نعمتیں روح سے متعلق ہوتی ہیں اور جسم اس کے تابع ہوتا ہے۔ ’’إمانعیم و إماعذاب‘‘ اس میں قبر میں نعمتوں اور عذاب کا اثبات ہے، جس پر کتاب اللہ بھی دلالت کرتی ہے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی، بلکہ اجماع امت بھی۔ انعام و عذاب سے متعلق کتاب اللہ سے دلائل جہاں تک کتاب اللہ کا تعلق ہے، تو اس کے لیے سورۂ واقعہ کی یہ آخری آیات ملاحظہ فرمائیں : ﴿فَلَوْلَا اِِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَo وَاَنْتُمْ حِیْنَئِذٍ تَنظُرُوْنَo وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِِلَیْہِ مِنْکُمْ وَلٰـکِنْ لَا تُبْصِرُوْنَo فَلَوْلَا اِِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَo تَرْجِعُوْنَہَا اِِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَo فَاَمَّا اِِنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَo فَرَوْحٌ وَرَیْحَانٌ وَّجَنَّۃُ نَعِیْمٍo وَاَمَّا اِِنْ کَانَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِo فَسَلٰمٌ لَّکَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِo وَاَمَّا اِِنْ کَانَ مِنَ الْمُکَذِّبِیْنَ الضَّالِّینَo فَنُزُلٌ مِّنْ حَمِیْمٍo وَتَصْلِیَۃُ جَحِیْمٍo﴾ (الواقعہ:۹۴۔۸۳) ’’بھلا کیوں نہیں جب روح گلے تک پہنچتی ہے، اور تم اس وقت دیکھ بھی رہے ہوتے ہو، جبکہ ہم تمہاری نسبت اس کے زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تم دیکھ نہیں سکتے ہو، پھر کیوں نہیں اگر تم غیر محکوم ہو تو واپس کر لیتے اس کو اگر تم سچے ہو تو، پھر اگر وہ اللہ کے مقربین میں سے ہو، تو اس کے لیے آرام و راحت اور نعمتوں والا باغ ہے، اور اگر وہ دائیں طرف والوں میں سے ہے تو کہا جائے گا سلام ہو تجھ پر دائیں طرف والوں سے، اور اگر ہو وہ جھٹلانے والوں گمراہوں سے تو اس کی مہمان نوازی ہوگی بہت کھولتے پانی سے اور جہنم میں داخلے سے۔‘‘ اسی طرح آل فرعون کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد: ﴿النَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَعَشِیًّا﴾ ’’انہیں صبح وشام آگ پر پیش کیا جاتا ہے۔‘‘ جوکہ قیامت آنے سے پہلے کی بات ہے، اور اس کی دلیل یہ ارشاد ربانی ہے: ﴿اَدْخِلُوْا آلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِo﴾ (غافر:۴۶)’’آل فرعون کو سخت عذاب میں داخل کرو۔‘‘ نیز ارشاد ربانی: ﴿وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوْٓا اَیْدِیْہِمْ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَکُمْ﴾ (الانعام:۹۳)
Flag Counter